چین: پاکستانیوں کی لاپتہ ایغور بیویاں رہا مگر کن شرائط پر؟
30 اپریل 2019
پاکستانی شوہروں کی وہ ایغور بیویاں جو 2017ء میں لاپتہ ہو گئی تھیں، انہیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم ان کے شوہروں کا کہنا ہے کہ ان کی یہ رہائی اس قیمت پر ہوئی ہے کہ انہیں چینی معاشرے میں انضمام کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
اشتہار
چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ سے تعلق رکھنے والی 40 کے قریب ایسی خواتین، جن کی شادی ہمسایہ ملک پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاجروں سے ہوئی تھی، 2017ء کے دوران چینی حکومت کی طرف سے شدت پسندی کے خلاف آپریشن کے دوران سے لاپتہ تھیں۔ یہ اُن قریب ایک ملین افراد میں شامل تھیں، جنہیں چینی حکومت کی طرف سے قائم کردہ حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ان مراکز پر عالمی سطح پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے تاہم چین کا موقف ہے کہ یہ حراستی مراکز نہیں بلکہ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز ہیں۔
رہا ہونے والی ان خواتین کے شوہروں کا کہنا ہے کہ انہیں حراست کے دوران اور رہائی کے بعد بھی اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ایسے کام کریں جو اسلام میں حرام ہیں۔
سنکیانگ میں اپنے سسرال کے گھر حال ہی میں جانے والے ایسے ہی ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس نے (میری بیوی) نے بتایا کہ انہیں سور کا گوشت کھانا پڑتا تھا اور شراب پینی پڑتی تھیں۔ اور یہ سب اُسے اب بھی کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اس تاجر کے مطابق اس کی بیوی کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ واپس نہیں جانا چاہتی تو اسے حکام کی تسلی کے لیے یہ سب کام ابھی بھی جاری رکھنا ہوں گے اور اسے مذہبی خیالات ترک کرنا ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے سسرال میں موجود قرآن کی جگہ اب چین سے متعلق کُتب فراہم کی گئی ہیں۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
پاکستان سے تعلق رکھنے والے بعض تاجروں کا خیال ہے کہ ان کی بیویوں کو پاکستان سے تعلق کی بناء پر ہی حراست میں رکھا گیا۔ زیر حراست رہنے والے بعض افراد پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انہیں محض اس وجہ سے ان کیمپوں میں رکھا گیا کیونکہ وہ اسلامی شعار پر عمل کرتے تھے جن میں داڑھی رکھنا یا نقاب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنکیانگ میں بنائے گئے حراستی مراکز کے خلاف بین الاقوامی برادری کے بڑھتی ہوئی تنقید اور چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھنے کے بعد چینی حکام نے دو ماہ قبل ایسی خواتین کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی تاجروں کی ایغور مسلمان بیویوں کی اکثریت کو رہا کیا جا چکا ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ چین کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔
پاکستانی شوہروں کی ’مقید‘ چینی بیویاں
02:05
اے ایف پی نے ایسے نو شوہروں کا انٹرویو کیا جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی بیویوں کو آئندہ تین ماہ تک سنکیانگ چھوڑنے کی اجازت نہیں، جس دوران ان پر گہری نگاہ رکھی جائے گی۔ قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر کے مطابق اس کی بیوی کی رہائی کی شرط یہ کہ ’’وہ چینی طرز معاشرت اختیار کرنے کے حوالے سے اس کے رویے پر نظر رکھیں گے اور اگر انہیں لگا کہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اتر رہی تو پھر اسے دوبارہ واپس بھیجا جا سکتا ہے۔‘‘
ایسے خاندانوں کے مطابق انہیں اپنی بیویوں اور ماؤں کی واپسی کی خوشی تو بہت ہوئی لیکن یہ خواتین اب ایک طرح سے ان کے لیے اجنبی بن کر رہ گئی ہیں۔ پتھروں کا کاروبار کرنے والے اس تاجر کے مطابق، ’’میری بیوی نے بتایا کہ اسے رقص پر مجبور کیا جاتا تھا اور اسے جسم کو آشکار کرنے والے کپڑے پہنے اور کیمپ میں شراب پینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔‘‘ اس تاجر کے مطابق اس کی بیوی کے پاس رہنمائی کی ایک کتاب ہے جس میں مختلف چیزوں کو سبز اور سرخ رنگ سے واضح کیا گیا ہے، مثال کے طور پر مسجد پر سرخ نشان لگایا گیا ہے جبکہ چینی پرچم کو سبز نشان سے واضح کیا گیا ہے۔
اس تاجر کے مطابق، ’’پہلے وہ باقاعدگی سے نماز پڑھتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے جبکہ وہ اب کبھی کبھی ریستوران میں جا کر شراب بھی پیتی ہے۔‘‘