چین، پاک جوہری ڈیل پر امریکہ نے وضاحت طلب کی
17 جون 2010آئندہ ہفتے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے اجلاس میں ممکنہ طور پرامریکہ پاکستان اور چین کے درمیان مجوزہ جوہری معاہدے کی مخالفت کرے گا۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان پی جے کراوٴلی کے مطابق واشنگٹن حکام نے چین سے پاکستان کو اضافی طور پر دئے جانے والے ری ایکٹرز کی تمام تفصیلات مہیا کرنے کو کہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان دونوں ملکوں کو جوہری تعاون سے قبل نیو کلیئر سپلائر گروپ سے منظوری لینا ہو گی۔
نیوکلیئرسپلائرز گروپ کے 46 رکن ممالک ہیں اوراس گروپ کی ذمہ داریوں میں جوہری سامان اور ٹیکنالوجی کی تجارت اور معاہدوں پر نظر رکھنا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے کہ جوہری سامان پرامن مقاصد کے لئے ہی استعمال ہو۔
امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق چین کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس نے یہ معاہدہ سن 2004ء میں نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اپنی شمولیت سے پہلے ہی طے کیا تھا۔ بعض ماہرین کے مطابق سن 2008ء میں امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے سول جوہری معاہدے کہ بعد چین نے بھی پاکستان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اسی نوعیت کا ایک معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سے قبل چین اس بات کا یقین دلا چکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ غیرعسکری جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون مکمل طورپر پُرامن ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان کے ساتھ جوہری تعاون انتہائی محفوظ اورعالمی قوانین کے عین مطابق ہے۔ چین کی نیوکلیئر کارپورپشن نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے باوجود چشمہ کے مقام پر دو سول جوہری ری ایکٹر تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ری ایکٹر 650 میگاواٹ صلاحیت کے حامل ہوں گے۔
اس سے قبل چین، پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں نے گزشتہ ماہ واشنگٹن میں ایک اجلاس میں شرکت کی تھی۔ امریکی صدر باراک اوباما کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں جوہری ہتھیاروں کا کنٹرول اور دنیا کو ان سے پاک کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ اس موقع پرچینی صدر ہو جن تاؤ نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی مخالفت کی تھی تاہم وہ سویلین مقاصد کے لئے اس ٹیکنالوجی کی حمایتی ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق/ خبر رساں ادارے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی