امریکی انتظامیہ کی جانب سے متعارف کروائے گئے ٹیرف کے مطابق ایسی مصنوعات جن کی اسمبلنگ چین میں ہوتی ہے، نئی محصولات کے نفاذ سے متاثر ہوں گی۔
اس حکومتی رُولنگ میں ایپل واچ، فِٹ بٹ اداروں کے انسانی حرکات جاننے والے ٹریکرز اور سونوس انکارپوریشن کے اسپیکرز کے نام شامل ہیں۔
نئی امریکی محصولات کی وجہ سے تاہم موبائل فونز اور لیپ ٹاپس پر کم اثرات پڑیں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ ان نئی محصولات کے عائد ہونے کے بعد ممکنہ طور پر متعدد الیکٹرانک مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
یورپی ممالک میں چینی اسمارٹ فون کی مانگ میں اضافہ
اطالوی ایلپس میں ’چھوٹا چین‘
امریکی حکام نے ان مصنوعات کی فہرست عوامی سطح پر جاری کر دی ہے، جس کے تحت چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر قریب دو سو ارب ڈالر کی محصولات عائد کی گئی ہیں۔ اس حکومتی رُولنگ کے مطابق ایپل، فٹ بٹ اور سونوس پر قریب دس فیصد اضافی محصولات عائد ہو سکتی ہیں۔
اس فہرست میں اصل ایپل واچ، فٹ بیٹ کے چارج، چارج ایچ آر اور سرج موڈلز کے ساتھ ساتھ سونوس کے پلے تھری، پلے فائیو اور ایس یو بی اسپیکرز کا نام شامل ہے۔
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPIتین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatovایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiserاسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomuaایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat ان تینوں کمپنیوں نے اس مجوزہ ٹیرف پر کسی بھی تبصرے سے انکار کیا ہے۔ تاہم اس سے قبل سونوس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے کمپنی مجبور ہو جائے گی کہ وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے اور اس کا نتیجہ عام صارف پر اضافی بوجھ کی صورت میں برآمد ہو گی۔ دوسری جانب چین نے بھی متنبہ کر رکھا ہے کہ ایسی صورت میں وہ بھرپور ردعمل کا مظاہرہ کرے گا اور امریکی مصنوعات پر بھی ایسی ہی محصولات عائد کی جائیں گی۔
ع ت، ع ح (روئٹرز، اے پی)