چین کا سالانہ پارلیمانی اجلاس شروع
5 مارچ 2021چینی نیشنل پیپلز کانگریس کی سالانہ پارلیمانی تقریبات اور میٹنگز برائے سن 2021 جمعہ پانچ مارچ سے شروع ہو گئی ہیں۔ مسلسل دوسرے برس بھی اس اجلاس کا انعقاد کورونا وبا کے تناظر میں ورچوئل انداز میں کیا گیا ہے۔
نیشنل پیپلز کانگریس چین میں قانون سازی کا سب سے بڑا، اہم اور مرکزی پارلیمانی ادارہ ہے۔ اس میں پیش کیے جانے مختلف معاملات کی باضابطہ منظوری لی جاتی ہے حالانکہ حکمران کمیونسٹ پارٹی قومی نوعیت کے معاملات پر حتمی فیصلے پہلے ہی کر چکی ہوتی ہے۔
نیشنل پیپلز کانگریس کا فورم بسا اوقات کمیونسٹ پارٹی ملکی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور مختلف افراد کے تبادلوں اور ان کی تعیناتی عام کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ اجلاس دس سے چودہ ایام تک جاری رہ سکتا ہے۔
چین کی غربت کے خاتمے میں کامیابی، حقیقت یا سرکاری پروپیگنڈا
اہم موضوعات
رواں برس کے اجلاس میں شامل معاملات میں ہانگ کانگ کی سکیورٹی وسماجی صورت حال کے ساتھ ساتھ مجموعی ملکی اقتصادی صورتِ حال کا جائزہ لینے کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہو سکتی ہے۔ اقتصادی صورت حال میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی مشکلات کے حوالے سے بھی اہم فیصلوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
ہانگ کانگ میں سن دو ہزار انیس سے جمہوریت نوازوں کی تحریک زروں پر ہے۔ تاہم بیجنگ حکومت ان مظاہروں کو کچلنے کی خاطر تمام تر ذرائع بروئے کار لا رہی ہے۔ اس سابق برطانوی نو آبادی کے مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ چین سے آزادی چاہتے ہیں تاہم بیجنگ حکومت ہانگ کانگ کو اپنا اہم اسٹریٹیجک حصہ قرار دیتی ہے۔
اس کے علاوہ کورونا وبا اور ویکسینیشن پر بھی فوکس کیا جا سکتا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے چین کی معاشی رفتار بظاہر پہلے جیسی نہیں دکھائی نہیں دیتی، پھر بھی معیشت بقیہ تمام ممالک سے اب بھی بہتر نظر آتی ہے۔
چین نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی شراکت داری میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا
چینی فرموں پر چھائی بے یقینی
کئی دوسرے ممالک کے مقابلے میں چین میں وبا سے متاثرہ معاشی حالات بہتر ہیں اور اس کی وجہ وبا پر کنٹرول میں جلد کامیابی خیال کی جاتی ہے۔ بیجنگ حکومت کے اقدامات سے ہی اقتصادی بحالی کے امکانات سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب وبا سے پیدا ہیلتھ کے بحران نے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں۔
امریکا میں کورونا سے پیدا مشکل حالات نے چینی فرموں پر شدید بے یقینی پیدا کر رکھی ہے۔ چینی معاشی ماہرین کا موقف یہ بھی ہے کہ داخلی طلب اور تیار کردہ سامان کی کھپت چینی اقتصاد کی پائیدار ترقی کی کلید بن سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کی کوششیں
نیشنل پیپلز کانگریس میں شریک پارٹی اراکین اپنی توجہ ٹیکنالوجی میں متعارف کرائی جانے والی داخلی و خارجی اختراعات اور سرمایہ کارانہ اقدامات پر بھی مرکوز کر سکتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ نے چین کی کئی خامیوں کو آشکارا کر دیا ہے اور اس میں خاص طور پر اس کا ہائی ٹیک کمپیوٹر پرزوں کی سپلائی پر انحصار ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی تک ایسا نظر آتا ہے کہ چین تکنیکی اعتبار سے مکمل طور پر آزادی حاصل نہیں کر پایا ہے اور اس سیکٹر میں اسے خاطر خواہ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کی کمپنیوں کو اپنے ٹیکنیکل علم میں غیر ملکی بڑے ڈیجیٹل اداروں کے بغیر ہی آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ امریکی ایکسپورٹ کنٹرول کا نفاذ ابھی تک ہے۔
غربت پر فتح
نیشنل پیپلز کانگریس کے سینکڑوں مندوبین اپنے موجودہ اجلاس کے دوران ملک میں شی حکومت نے جس انداز میں غربت کے خاتمے کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے، اسے بھی پرزور انداز میں سراہیں گے۔ غربت پر کامیابی ایسے وقت میں حاصل کی گئی ہے جب کمیونست پارٹی کے قیام کے سو برس مکمل ہوئے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا قیام سن 1921 میں ہوا تھا۔
بیجنگ حکومت کے مطابق کسی بھی فرد کی یومیہ آمدی گیارہ یوان سے کم ہے تو وہ غریب تصور کیا جائے گا۔ یہ ورلڈ بینک کے معیار سے دو ڈالر سے تھوڑا کم ہے۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ سارے ملک میں آمدن کے اس معیار کے مطابق ہر فرد کی یومیہ آمدن گیارہ یوان سے بڑھ چکی ہے۔
چین ایغور مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کا مرتکب، کینیڈین قرارداد منظور
جرمن دارالحکومت برلن میں چین سے متعلق ریسرچ ادارے کی خاتون محقق نیس گرؤنبرگ کا کہنا ہے کہ اب چینی حکومت کا اگلا ٹاسک غربت سے نکالے ہوئے افراد کو متوسط طبقے میں داخل کرنا ہے۔ ان کے مطابق اس میں روزگار کے مقامات پر بہتر حالات، مناسب تعلیم کے یکساں مواقع اور بڑھتی عدم مساوات کا خاتمہ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
ع ح، ع ب (نیوز ایجنسیاں)