1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کا پاکستان میں دو بڑے ڈیم منصوبوں پر کام روکنے کا اعلان

29 مارچ 2024

چینی کنٹریکٹرز نے پاکستان میں دو بڑے ڈیم منصوبوں پر تعمیری کام روک دیا ہے۔ یہ اعلان ایک ڈیم کی تعمیر میں شامل کارکنوں پر حالیہ خودکش بم حملے میں پانچ چینی انجینیئرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد کیا گیا ہے۔

Pakistan Khyber Pakhtunkhwa | Satellitenbild Dasu-Staudamm-Projekt
تصویر: Planet Labs PBC/AP Photo/picture alliance

جمعہ انتیس مارچ کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا سے موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں دو بڑے ڈیم  منصوبوں کی تعمیر روک دینے کا اعلان منگل چھبیس مارچ کو پاکستان میں تعمیراتی کام کرنے والے چینی انجینیئرز کی ایک گاڑی پر ہونے والے ہلاکت خیر حملے کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔ جمعے کو پاکستانی اہلکاروں نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چین نے اس ہلاکت خیز حملے کے بعد ڈیموں کی تعمیر کے دو منصوبوں پر کام روک دیا ہے۔

دیامیر بھاشا ڈیم، توقعات اور خدشات

04:00

This browser does not support the video element.

چینی کمپنیوں کا مطالبہ

ایک صوبائی اہلکار نے بتایا کہ چینی کمپنیوں نے پاکستانی حکام  سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تعمیراتی سائٹس کو جہاں قریب ایک ہزار دو سو پچیس چینی شہری کام کرتے ہیں، دوبارہ کھولنے سے پہلے نئے سکیورٹی پلان پیش کریں۔ پاکستان میں چینی کارکنوں کی سلامتی دونوں ممالک کے لیے بڑی تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔

پاکستان  میں عسکریت پسندوں کی طرف سے 'بیرونی اثر و رسوخ کی مخالفت‘ کا اظہار کرتے ہوئے چینی شہریوں کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی گزشتہ منگل کو چینی کارکنوں پر ہونے والا وہ حملہ تھا، جس میں ایک خودکش بمبار نے ان چینی انجینیئروں کو نشانہ بناتے ہوئے ڈیم سائٹس میں سے ایک کے قریب ایک پہاڑی سڑک پر خود کو ان کی گاڑی سے ٹکرا دیا تھا۔

چین کے تعاون سے پاکستان میں متعدد ترقیاتی پروجیکٹس پر کام ہورہا ہےتصویر: Thar Coal Company/XinHua/dpa/picture alliance

کن دو چینی کمپنیوں نے کام روکا؟

صوبے خیبر پختونخوا  کے محکمہ داخلہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کے روز چائنہ گیزوبا گروپ کمپنی نے صوبے میں داسو ڈیم اور پاور چائنہ نے دیامیر بھاشا ڈیم پر کام روک دیا۔ اس حکومتی اہلکار نے کہا، ''انہوں نے حکومت سے نئے سکیورٹی پلان کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘

اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''تقریباً 750 چینی انجینیئر داسو ڈیم پروجیکٹ سے منسلک ہیں جبکہ 500 دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ صوبائی محکمہ داخلہ کے اس سینیئر اہلکار کے مطابق چینی انجینیئروں کی نقل و حرکت ان کمپاؤنڈز تک محدود کر دی گئی ہے جہاں وہ رہتے ہیں، متعلقہ سائٹس کے قریب ہی۔ چین نے اس پیش رفت پر اب کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اسی ہفتے بار بار پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ہاں چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

پاکستانی بازاروں میں ’میڈ ان چائنا‘ مصنوعات کی دھوم

02:24

This browser does not support the video element.

چین، پاکستان کا دیرینہ ساتھی

بیجنگ اسلام آباد کا سب سے قریبی علاقائی اتحادی ہے اور اکثر مالی مشکلات کے شکار اپنے پڑوسی کو مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ چین  نے اپنی بیلٹ اینڈ روڈ انویسٹمنٹ اسکیم کے تناظر میں دنیا بھر میں دو ٹریلین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت پاکستان میں بھی انفراسٹرکچر منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں کچھ حلقے طویل عرصے سے یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ انہیں ان پروجیکٹس کے باعث پیدا ہونے والے ملازمتوں کے مواقع یا آمدنی میں سے مناسب حصہ نہیں مل رہا۔

سی پی ای سی پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے بہت سے پسماندہ علاقوں میں تعمیراتی پروجیکٹس کی منصوبہ بندی کی گئی تھیتصویر: A. G. Kakar/DW

منگل کے روز کیے گئے حملے نے اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کی سرگرمیوں میں بھی ہلچل مچا دی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور خارجہ اور داخلہ امور کے وزراء نے بھی یکے بعد دیگرے ہلاک ہونے والے چینی شہریوں اور ایک پاکستانی ڈرائیور کے لواحقین سے تعزیت کی تھی۔

چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں دونوں ممالک کی دوستی کو ''آہنی‘‘ قرار دیا ہے لیکن پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ''چینی شہریوں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔‘‘

چینی کارکنوں پر ہونے والے گزشتہ حملے

گزشتہ منگل کے روز کیا گیا حملہ اس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں نے ملک کے جنوب مغرب میں واقع گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ، جسے پاکستان  میں چینی سرمایہ کاری کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے، کے دفاتر پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ 2019 ء میں مسلح افراد نے  صوبہ بلوچستان میں ایک لگژری ہوٹل پر دھاوا بول دیا تھا، جو گوادر میں چینی حمایت یافتہ گہرے پانی کی بندرگاہ سے بحیرہ عرب تک اسٹریٹیجک رسائی کا ایک اہم ترین مقام ہے۔ اس حملے میں بھی کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سے قبل جون 2020 ء میں بھی بلوچ علیحدگی پسندوں نے ملک کے تجارتی مرکز کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو بھی نشانہ بنایا تھا، جو جزوی طور پر چینی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔

ک م/ م م (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں