چین کا چاند تک ’لانگ مارچ‘: ایک خواب ٹوٹا ہے، حوصلہ نہیں
2 اپریل 2018
بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ ایک غیر فعال چینی خلائی تجربہ گاہ کی زمین کی فضا میں حادثاتی واپسی اور تباہی چین کے خلائی پروگرام یا چاند تک اپنے انسانی مشن بھیجنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی۔
اشتہار
چینی دارالحکومت بیجنگ سے پیر دو اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چین کی طرف سے ستمبر 2011ء میں خلا میں بھیجے جانے کے بعد ’تیان گونگ ایک‘ نامی جس خلائی تجربہ گاہ کا استعمال ترک دیا گیا تھا، وہ آج پیر کے روز خلا سے حادثاتی طور پر واپس زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد تباہ تو ہو گئی لیکن یہ نقصان عوامی جمہوریہ چین کے چاند تک ’لانگ مارچ‘ کے منصوبوں کو متاثر نہیں کر سکے گا۔
چینی خلائی ماہرین نے زمین کے چاند تک سچ مچ کے ’لانگ مارچ‘ کا کوئی پروگرام تو نہیں بنایا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے لیکن علامتی طور پر یہ بات اس لیے کہی جاتی ہے کہ جدید چین کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کے بانی ماؤ زےتنگ نے ایک لانگ مارچ کیا تھا اور اب ’لانگ مارچ‘ کی یہی اصطلاح اس ایشیائی ملک میں ریاستی مقاصد کے حصول کی انتھک کوششوں کا استعارہ بن چکی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ’تیان گونگ ایک‘ ایک ایسا خلائی ماڈیول تھا، جسے بیجنگ حکومت خلا میں اپنا انسانی عملے والا ایک اسٹیشن قائم کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اب اس اسپیس لیبارٹری کی تباہی اس امر کا ثبوت بن گئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک اور دوسری سب سے بڑی معیشت کو، جو مستقبل میں خود کو ہر حوالے سے ایک سپر پاور کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند ہے، اس کے خلائی پروگرام کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا تو ہے لیکن چین کا یہ موقف بھی بہت واضح ہے کہ خلائی تسخیر کے شعبے میں مسلمہ عالمی طاقتوں کا ہم پلہ بننے کی جدوجہد میں اس کا محض ایک خواب ٹوٹا ہے لیکن حوصلہ نہیں۔
چینی خلائی پروگرام کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ خواہش ہمیشہ ہی سے بیجنگ کے ریاستی عزم کا حصہ رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 1957ء میں جب کالعدم سوویت یونین نے اپنا اولین ماڈیول ’اسپُٹنِک‘ خلا میں بھیجا تھا تو عوامی چین کے بانی چیئرمین ماؤ نے تبھی کہہ دیا تھا، ’’ہم بھی مصنوعی سیارے تیار کریں گے۔‘‘
طاقتور ترین خلائی راکٹ کامیاب طریقے سے روانہ
01:13
چین نے اپنا پہلا مصنوعی سیارہ 1970ء میں خلا میں بھیجا تھا اور اس کا خلابازوں کو لے کر جانے والا پہلا انسانی مشن 2003ء میں خلا میں گیا تھا۔ اب تک چینی خلائی پروگرام اس لیے بہت کامیاب رہا ہے کہ بیجنگ کو آج پیش آنے والے واقعے سے پہلے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا جبکہ امریکا اور روس تو گزشتہ عشروں کے دوران خلائی میں اپنے متعدد خلاباز اور خلائی جہاز یا تو کھو چکے ہیں یا وہ تباہ ہو گئے تھے۔
چین اس وقت امریکا اور روس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنا ایک ایسا خلائی اسٹیشن قائم کر سکے، جو زمین کے ارد گرد خلا میں گردش کرتا ہو۔ اس منصوبے کو، جسے بیجنگ اپنا ’خلائی خواب‘ قرار دیتا ہے، اس وقت سے انتہائی زیادہ ترجیج دیتے ہوئے اس پر کام کیا جا رہا ہے، جب برسوں پہلے موجودہ چینی صدر شی جن پنگ اقتدار میں آئے تھے۔
کیوروسٹی کو دو سال مکمل
امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کی طرف سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی تیسری روبوٹک گاڑی کیوروسٹی کو آج چھ اگست کے دن دو برس مکمل ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ریکارڈ فاصلہ
ناسا کی طرف سے جنوری 2004ء میں مریخ کی سطح پر جو ایک روبوٹک گاڑی اتاری گئی اسے اپورچونٹی کا نام دیا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اس گاڑی کو ایک کلومیٹر کے اندر اس سُرخ سیارے کی سطح کا جائزہ لینا تھا۔ مگر گزشتہ ایک دہائی کے دوران اپورچونٹی مریخ پر 40 کلومیٹر کا سفر کر چکی ہے۔ جو زمین سے پرے کسی گاڑی کا ریکارڈ سفر ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
کیوروسٹی کا اہم سنگ میل
چھ اگست 2012ء کو مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی روبوٹک گاڑی کیوروسٹی ہمارے نظام شمسی کے اس سیارے کی سطح پر مصروف عمل ہے۔ کیوروسٹی زمینی کنٹرول سنٹر کو مریخ کی سطح کی تصاویر بھیجنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس پر نصب نظاموں نے پہلی بار وہاں کی ایک چٹان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہ اس مشن کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کی سطح پر پہلا سوراخ
کیوروسٹی میں نصب ڈرلنگ نظام نے رواں برس فروری میں مریخ کی سطح پر سوراخ کیا۔ اس کا قطر 1.6 انچ جبکہ گہرائی چھ انچ تھی۔ ناسا حکام نے اس پیشرفت کو ’’مریخ پر اترنے کے بعد کی عظیم ترین کامیابی‘‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech
پانی کی موجودگی کا ثبوت
سائنسدان مریخ کی اس چٹان کے تجزیے سے یہ امید کر رہے ہیں کہ یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ آیا ماضی میں کبھی اس کی سطح پر پانی موجود رہا ہے یا نہیں۔ اس کے نتائج سے مریخ کے بارے میں مزید اہم معلومات بھی حاصل ہوں گی۔
تصویر: Reuters/NASA/JPL-Caltech/MSSS
زندگی کے لیے سازگار فضا
کھدائی کے ذریعے حاصل کیے گئے مریخ کی چٹانی سطح کے نمونے میں سلفر، نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ ان کیمیائی اجزاء کو زندگی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ ناسا ماہرین کے مطابق، ’’یہ کبھی قابل رہائش جگہ رہی ہو گی۔‘‘
تصویر: picture alliance/AP Photo/NASA
سفر جاری ہے
900 کلوگرام وزنی یہ روبوٹک گاڑی شمسی توانائی کے علاوہ جوہری توانائی سے چلتی ہے۔ اس طرح خصوصی ساخت کے چھ پہیوں والی یہ گاڑی ریتلی اور پتھریلی زمین پر با آسانی حرکت کر سکتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
اپنی ہی ایک تصویر
کیوروسٹی پر انتہائی جدید آلات نصب ہیں۔ جن میں کمپیوٹرز، انٹینیا، ٹرانسمیٹر، کیمرے اور چیزوں کو پکڑنے والے بازو شامل ہیں۔ کسی خرابی کی صورت میں یہ گاڑی خود ہی اسے دور بھی کر سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس پر نصب مختلف کیمرے اس گاڑی کے دیگر حصوں کی تصاویر بھی بنا کر زمین پر بھیجتے رہتے ہیں۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/Malin Space Science Systems
حرکت کرتی آنکھ
کیوروسٹی کے ایک روبوٹک آرم پر ایک خصوصی کیمرہ نصب ہے جسے ’مارس ہینڈ لینز امیجر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی خوردبین ہے جو روبوٹ کے طویل روبوٹک بازو کو آہستگی کے ساتھ زیرتجزیہ مقام کے چھوٹے چھوٹے حصوں کی طرف لاتی ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ سے سورج گرہن کا نظارہ
کیوروسٹی پر نصب ایک پول پر لگے کیمرے نے یہ تصاویر بنائی ہیں۔ ان میں مریخ کے دو چاندوں میں سے ایک فوبوز Phobos مریخ اور سورج کے درمیان سے گزر رہا ہے جس سے جزوی سورج گرہن دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech/MSSS
مریخ کا پہلا سال
24 جون 2014ء وہ دن تھا جب کیوروسٹی کو مریخ کی سطح پر اترے مریخ ہی کے وقت کے مطابق ایک سال مکمل ہوا۔ مریخ کا سال دنیا کے 687 دنوں کے برابر ہے۔ اور یوں اس نے اپنے لیے مقرر کردہ وقت کا ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ مگر یہ اب بھی رواں دواں ہے اور ممکن ہے کہ یہ اپورچونیٹی کے ریکارڈ کو بھی توڑ دے۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
10 تصاویر1 | 10
چینی خلائی پروگرام ملکی فوج کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور خلائی ٹیکنالوجی کی چینی اکیڈمی کے سربراہ کے مطابق بیجنگ کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ چاند پر اپنا ایک ’اڈہ‘ بھی قائم کر سکے۔ چینی خلائی محققین تو مستقبل میں مریخ تک انسانی مشن بھیجنے کا ذکر بھی کر چکے ہیں۔