1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: کورونا وبا پھوٹنے کی رپورٹنگ کرنے والی صحافی کو جیل

29 دسمبر 2020

چین کے شہر ووہان سے کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کی رپورٹنگ کرنے پر خاتون چینی صحافی ژانگ ژان کو چار سال قید کی سزا دی گئی ہے۔

China Journalistin Zhang Zhan
تصویر: YOUTUBE/AFP

 ژانگ ژان کے وکیل کا کہنا ہے کہ شنگھائی کی ایک عدالت میں مختصر سماعت کے بعد ان کی موکلہ کو پیر کے روز چار برس قید کی سنائی گئی ہے۔ ژانگ نے چین کے ووہان شہر میں فروری میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے ابتدائی دنوں کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی اور وہاں کے حقائق سے دنیا کو آگاہ کیا تھا۔

37سالہ ژانگ ژان نے براہ راست رپورٹنگ اور مضامین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے تھے۔ ان میں بھیڑ سے بھرے ہسپتالوں اور قبرستانوں نیز خالی سڑکوں اور چینی حکام کو وائرس پر قابو پانے کی جد و جہد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

ماضی میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ژانگ شنگھائی سے کام کرتی ہیں۔ انہیں ”جھگڑا کرنے اور مسائل کو ہوا دینے" کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ چین میں حکومت کی نکتہ چینی کرنے والوں پر بالعموم یہی الزام عائد کیا جاتا ہے۔

ان کے وکیل رین کوانیو نے شنگھائی کے ڈسٹرکٹ پیپلز کورٹ کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ جب سزا کا اعلان کیا گیا تو ژانگ ژان پریشان نظر آرہی تھیں۔ عدالت میں موجود ان کی والدہ رو پڑیں۔

رین کوانیو نے مقدمے کی کارروائی کو بہت جلدی میں کی گئی سماعت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس یہ سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ژانگ پر درحقیقت کیا الزامات عائد کیے گئے۔" صحافیوں کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کو تشویش

اقو ام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ اسے اس سزا پر 'گہری تشویش‘ ہے۔

بین الاقوامی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ”ہم ژانگ کے کیس کو سن 2020 میں چینی حکام کے سامنے پورے سال اٹھاتے رہے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔ یہ کووڈ۔19 کے حوالے سے اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کی کوشش کی ایک مثال ہے۔"

سچ بتانے کی سزا

ژانگ پہلی صحافی ہیں جنہیں کورونا وائرس کی وبا کی رپورٹنگ کے لیے مقدمہ چلانے کے بعد سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم  ووہان سے رپورٹنگ کرنے والے تین دیگر سٹیزن جرنلسٹ، چین کویشی، فانگ بن اور لی زی ہوا،  فروری سے ہی لاپتہ ہیں۔ اس وبا کے حوالے سے چینی حکومت کے اقدامات کی نکتہ چینی کرنے کی پاداش میں اب تک آٹھ افراد کوسزا دی جاچکی ہے۔

ژانگ نے ووہان میں وبا پھوٹنے کے بعد اس سے نمٹنے کے چینی حکومت کے طریقہ کار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”حکام نے عوام کو خاطر خواہ اطلاعات فراہم نہیں کیں اور شہر کو اچانک لاک ڈاون کردیا۔"

چینی پولیس میڈیا کو عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے سے روکتے ہوئےتصویر: LEO RAMIREZ/AFP/Getty Images

چین کے رویے کی نکتہ چینی

کووڈ۔19 پر قابو پانے کے لیے رازدارانہ رویہ اپنانے کی وجہ سے چین کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیجنگ نے بعد میں کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی اپنی کوششوں  کو 'غیر معمولی کامیابی‘  کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ برس کے اواخر میں ووہان میں پہلی مرتبہ وائرس پھوٹنے کے بعد فروری میں گیارہ ملین آبادی والے اس شہر میں لاک ڈاون نافذ کردیا گیا تھا۔

 تاہم چین کا کہنا ہے کہ اس کی معیشت دوبارہ پٹری پر آگئی ہے جبکہ دنیا کے بیشتر دیگر ممالک وائرس کے بعد لاک ڈاؤن اور وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کے تکلیف دہ مراحل سے گزر رہے ہیں۔

ژانگ کے مقدمے کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ایک ٹیم کورونا وائرس پھوٹنے کے اسباب کا پتہ لگانے کے لیے ووہان پہنچنے والی ہے۔

ژانگ کی صحت پر تشویش لاحق

جرمنی کے انسانی حقوق کے کمشنر باربل کوفلر نے ژانگ کی بگڑتی ہوئی صحت پر 'گہری تشویش‘ کا اظہار کرتے ہوئے چین سے اپیل کی کہ”اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریاں ادا کرے۔"

گزشتہ جون میں ہی ژانگ کی صحت بگڑنے لگی تھی جب انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کردی تھی۔

ان کے وکیل رین کینو نے بتایا کہ پولیس نے ژانگ کو ٹیوب کے ذریعہ زبردستی کھانا کھلایا۔ دسمبر تک ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی اور انہیں سر درد، چکرآنے، پیٹ درد، لو بلڈ پریشر اور گلے میں انفیکشن جیسی شکایتیں ہوگئیں۔ رین کینو کا مزید کہنا تھا کہ ”گزشتہ ہفتے جب میں نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر مجھے سخت سزا سنائی گئی تو میں کھانے پینے سے پوری طرح انکار کردوں گی، حتی کہ میری موت ہوجائے... وہ سوچتی ہیں کہ شاید جیل میں ہی ان کی موت ہوجائے گی۔"

ایک دیگر وکیل ژانگ کیکے، جنہوں نے کرسمس کے دن ژانگ ژان سے ملاقات کی تھی، نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں بتایا کہ' انہیں 24 گھنٹے جیل کے کمرے میں رکھا جارہا ہے، ان کی صحت بگڑتی جارہی ہے اور وہ نفسیاتی طورپر اذیت زدہ محسوس کرتی ہے۔"

 ج ا/ ص ز   (اے ایف پی، ڈی پی اے)

کورونا بحران، چینی کسانوں کے کاروبار کرنے کے انوکھے طریقے

03:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں