1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: کووڈ پالیسی کے ناقد سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل

7 جنوری 2023

عوامی جمہوریہ چین میں حکومت کی طرف سے ملک کی کووڈ پالیسی پر اعتراض کرنے والے افراد کے ایک ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ اقدام کورونا پابندیوں میں نرمی اور ملک کو دوبارہ کھولنے کے دوران کیا گیا۔

Sina Weibo China Internet
تصویر: picture-alliance/dpa/Inagine Wang Yadong

چین کے ایک مقبول سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارم سینا وائبو نے اپنے بیان میں اس کا اعتراف کیا کہ خلاف ورزیوں کے بارہ ہزار آٹھ سو چون  کیسز بشمول مختلف ماہرین، اسکالرز اور میڈیکل ورکرز پر حملوں کا نوٹس لیا گیا ہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں ایک ہزار ایک سو بیس اکاؤنٹس پر عارضی یا مستقل پابندیاں عائد کر دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ چینی حکمران کمیونسٹ پارٹی، کووڈ انیس کے مہلک عارضے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے سخت لاک ڈاؤن کے نفاذ کے سلسلے میں زیادہ تر انحصار میڈیکل برادری پر ہی کر رہی تھی۔ اس کا مقصد چین کی جابرانہ حد تک سخت لاک ڈاؤن پالیسیوں، قرنطینہ کے احکامات اور عمومی کورونا ٹیسٹنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانچ جیسے اہم اقدامات کا دفاع کرنا تھا۔ ان میں سے تقریباً تمام سختیوں کوپچھلے مہینے اچانک ہٹا لیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین میں کورونا کے نئے کیسز اتنی بڑی مقدار میں دوبارہ سامنے آنے لگے کہ ملکی طبی صلاحیت اور وسائل پر بہت بڑا بوجھ پڑنا شروع ہو گیا۔

آزادی رائے پر پابندی

 چین کی کمیونسٹ پارٹی براہ راست تنقید کی ہر گز اجازت نہیں دیتی اور اس نے آزادی اظہار پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارم سینا نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا، ''کمپنی تحقیقات میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھے گی اور ہر قسم کے غیر قانونی مواد کی صفائی اور ہم آہنگی پیدا کرنے، نیز صارفین کی اکثریت کے لیے دوستانہ کمیونٹی ماحول کی فراہم کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘

کورونا کے دو سال: دنیا آج بھی وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے جوابات کی منتظر

سخت لاک ڈاؤن پالیسیوں کی وجہ سے چین کی تجارت اور کاروباری زندگی مکمل طور پر مفلوج رہیتصویر: Photoshot/picture alliance

چین میں عوام کے اندر شدید مایوسی اور غصے کا سبب بننے والے عوامل میں سر فہرست بیجنگ حکومت کے کورونا پابندیوں سے متعلق انتہائی سخت قواعد و ضوابط اور خاص طور سے عام سفری پابندی بنی۔ انہیں اقدامات کے خلاف سب سے زیادہ زور و شور سے مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری تھا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے چینی باشندوں نے حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور سے وہ چینی باشندے جو ہفتوں اپنے گھروں میں بند رہے، انتہائی مشتعل نظر آ رہے تھے۔ معاشرے میں غصے اور بے چینی پھیلانے کا سبب ایسے واقعات بھی بنے جن میں ہر وہ باشندہ جس میں کورونا ٹیسٹ کے مثبت نتیجے کے امکانات پائے جاتے ہوں یا کسی باشندے کا کسی کووڈ پوزیٹیو شخص سے رابطہ ہوا ہو، اُسے طبی معائنے کے لیے فیلڈ ہسپتال میں محدود کر دیا جاتا جہاں غذا اور حفظان صحت کی ابتر صورتحال پائی جاتی ہے۔ 

  یورپی یونین کی چین کو مفت کووڈ ویکسین کی پیش کش

سخت ترین اقدامات میں نرمی کی وجہ

چین میں سخت لاک ڈاؤن اور پابندیوں کا معاشرے پر جو اقتصادی یا مالی بوجھ پڑنا شروع ہوا اُس نے بالاآخر چینی باشندوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ممکنہ طور پر بیجنگ حکومت نے اسی لیے اپنے سخت اقدامات میں فوری طور سے نرمی لانے کا فیصلہ کیا۔

تائیوان میں لازمی فوجی سروس کی مدت تین گنا کر دینے کا فیصلہ

چین میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف پُر تشدد مظاہرے ہوتے رہےتصویر: Koki Kataoka/Yomiuri Shimbun/AP Photo/picture alliance

کورونا پالیسیوں میں ان تبدیلیوں کے طور پرایک اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے اور قرنطینہ کے ضوابط توڑنے والوں افراد کے خلاف مجرمانہ الزامات نہیں لگائے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہفتہ سات جنوری کو پانچ سرکاری محکموں نے نوٹس جاری کیا۔ نیز یہ اعلان بھی کیا گیا کہ زیر حراست افراد کو رہا کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ضبط  کیے گئےاثاثے واپس کر دیے جائیں گے۔

چین کے ایک روزنامے ''چائنہ ڈیلی‘‘ کی ویب سائٹ نے ان تازہ ترین حکومتی فیصلوں کے بارے میں رپورٹ شائع کی جس کے مطابق یہ اقدامات مذکورہ پابندیوں اور سختیوں کے معاشرے کے رویوں پر پڑنے والے منفی اثرات کے تفصیلی جائزے کے بعد کیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ چین اب کورونا وبا کی نئی صورتحال کے مطابق اس کے پھیلاؤ کے خلاف روک تھام اور کنٹرول کی پالیسی وضع کرے گا۔

ک م/  ا ب ا ( اے پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں