چین کو بائیڈن کے خلاف تفتیش شروع کرنی چاہیے، ڈونلڈ ٹرمپ
4 اکتوبر 2019
امریکی صدر اب کھلے عام جو بائیڈن اور اُن کے بیٹے کے خلاف چین سے تفتیش شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو بائیڈن سابق صدر باراک اوباما کے دور میں نائب صدر کے منصب پر فائز تھے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جو بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تفتیشی عمل شروع کرے۔ وائٹ ہاؤس میں میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک چینی صدر سے براہ راست اس کا مطالبہ نہیں کیا لیکن انہیں تفتیش شروع کرنا چاہیے۔
ٹرمپ اس سے قبل یوکرائنی صدر وولوودومیر زیلنسکی سے بھی سابق امریکی نائب صدر اور اُن کے بیٹے کے خلاف تفتیشی عمل شروع کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ جمعرات تین اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے یوکرائنی ہم منصب کے ساتھ کی جانے والی گفتگو کا دفاع بھی کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دوسرے ممالک سے بھی جو بائیڈن کے خلاف تفتیش کے مطالبات کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یہ ان کی ڈیوٹی ہے اور حق ہے کہ ملک کے اندر ہونے والی کسی بھی کرپشن کے خلاف تفتیش کرائیں۔ اسی دوران نائب صدر مائیک پینس نے بھی اپنے صدر کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکی عوام کا یہ حق ہے کہ کسی بھی غلط کام کے بارے میں تفصیل جان سکیں۔
امریکی صدر کی اپنے یوکرائنی ہم منصب کے ساتھ ہونے والی ٹیلی فون گفتگو کی اطلاع ایک امریکی انٹیلیجنس اہلکار نے دی تھی۔ ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان میں ٹرمپ کے مواخذے کے حوالے سے ابتدائی تفتیشی عمل شروع ہو چکا ہے۔
امریکی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو بائیڈن کے خلاف دوسرے ممالک سے تفتیش کے مطالبات اس لیے کر رہے ہیں تا کہ وہ اگلے برس کے صدارتی الیکشن کے ممکنہ امیدوار کی شہرت کو خراب کر سکیں اور اپنی کامیابی کی راہ کو ہموار کر سکیں۔
ٹرمپ کے جو بائیڈن کے خلاف تفتیش کروانے کی شدت کے حوالے سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان کی انتخابی مہم کے چیرمین کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ اگلے برس کے الیکشن میں جو بائیڈن کے مقابلے سے گبھرائے ہوئے ہیں۔ جو بائیڈن اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے حوالے سے سب سے فیورٹ امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔
ع ح ⁄ ع ت () اے پی، روئٹرز)
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔