گزشتہ برس چین کے امریکا کے ساتھ فاضل تجارتی حجم میں کافی زیادہ اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں چین کی امریکا کے ساتھ ہونے والی تجارت کے حجم میں ایک برس قبل کے مقابلے میں 17.2 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اشتہار
چینی حکام کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں چین کو امریکا کے ساتھ کی جانے والی فاضل تجارت کا حجم تقریباً 323 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ سن 2017 میں بھی چین کی طرف سے امریکا بھیجی جانے والی مصنوعات کی مالیت اُس سے زائد رہی تھی جو امریکا سے چین کو بھیجی گئیں۔ اعداد وشمار کے مطابق سن 2017 میں چین کو تجارت میں امریکا پر تقریباً 276 بلین ڈالرز کی برتری حاصل تھی۔
چینی محکمہٴ کسٹم کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 میں چین کی امریکا کو برآمدات میں گیارہ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا تقریباً 478 بلین ڈالر کی مصنوعات امریکا کو روانہ کی گئی تھیں۔ دوسری جانب امریکا کی طرف سے چین کو فروخت کی جانے والی اشیاء میں محض 0.7 کا معمولی سا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ان اعداد و شمار میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2018ء کے دوران امریکا کے ساتھ چینی تجارت میں اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں ساڑھے تین فیصد کی کمی ہوئی۔ ان دونوں ملکوں میں تجارتی کمی کی یقینی وجہ چینی مصنوعات پر امریکا کی اضافی محصولات کا نفاذ ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکی صدر مسلسل چینی امریکی تجارت میں چین کی برتری پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سن 2018 کے دوران دونوں ممالک (امریکا اور چین) نے ایک دوسرے کی مصنوعات کی درآمدات پر اربوں ڈالر کے محصولات کا نفاذ کیا۔ ان محصولات کو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ ابھی گزشتہ ہفتے کے دوران واشنگٹن اور بیجنگ حکومتوں کے تجارتی نمائندوں نے مذاکرات بھی کیے ہیں جن کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی تجارتی کشیدگی کی شدت میں کمی لانا ہے۔ ان مذاکرات کے نتائج سامنے تو نہیں آئے ہیں لیکن فریقین نے انہیں مثبت قرار دیا ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔