1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین کی طرف سے ’ایگزٹ بین‘ کا دائرہ کار بڑھتا ہوا

2 مئی 2023

چین کی طرف سے ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جنہیں حکومت نے ملک چھوڑنے سے روک دیا ہے۔ یہ صورتحال چین کے اس اعلان سے متضاد ہے کہ کووڈ کی وبا کے بعد چین کو کاروبار کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

Symbolbild I Flagge China I Hongkong
تصویر: Keith Tsuji/ZUMA/picture alliance

انسانی حقوق سے متعلق ایک گروپ ’’سیف گارڈ ڈیفینڈرز‘‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایسے چینی اور غیر ملکی باشندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جو چین کے ’ایگزٹ بین‘ یا ملک چھوڑنے پر پابندی کے قانون سے متاثر ہوئے ہیں۔

 خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک تجزیے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس طرح کی پابندیوں سے متعلق حالیہ برسوں کے دوران عدالتی مقدمات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ کہ غیر ملکی کاروباری لابیز اب اس صورتحال پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔

’سیف گارڈ ڈیفنڈرز‘ کی رپورٹ کے مطابق، ’’جب سے شی جن پنگ نے 2012ء میں اقتدار سنبھالا، چین نے ملک چھوڑنے پر پابندی کے لیے قانونی دائرہ کار بڑھا دیا ہے اور اسے بہت زیادہ استعمال بھی کیا ہے۔ بعض اوقات تو قانونی دائرے سے بھی باہر نکل کر۔‘‘

اس گروپ کی ایک رکن لارا ہارتھ کے مطابق، ’’جولائی 2018ء کے بعد سے رواں برس تک کم از کم پانچ نئے قوانین یا پہلے سے موجود قوانین میں ترمیم کی گئی ہے، جو ایگزٹ بینز کو استعمال کرنے کی سہولت دیتے ہیں۔ اس طرح اب تک اس حوالے سے مجموعی طور پر 15 قوانین وجود میں آ چکے ہیں۔‘‘ 

چین میں جبری گمشدگیاں

01:28

This browser does not support the video element.

ملک چھوڑنے پر پابندی سے متعلق چینی قوانین پر توجہ ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب تجارت اور سکیورٹی سے جڑے تنازعات پر چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ صورتحال چین کے اس پیغام سے تضاد رکھتی ہے کہ وہ  کووڈ کی وبا کے سبب کئی برس تک جاری رہنے پابندیوں  کے بعد اب غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت کے لیے اب کھل چکا ہے۔

روئٹرز کی طرف سے چین کی سپریم کورٹ کی ڈیٹا بیس میں ایگزٹ بین سے متعلق اعداد وشمار کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ ایسے کیسز کی تعداد میں 2016ء سے 2022ء کے دوران آٹھ گُنا اضافہ ہوا جو اس طرح کی پابندیوں سے متعلق تھے۔

اس ڈیٹا بیس میں موجود زیادہ تر کیسز سول نوعیت کے تھے کرمنل یا فوجداری نہیں۔ روئٹرز کے مطابق ان میں ایسا کوئی کیس نہیں تھا جس میں کوئی غیر ملکی شامل ہو یا جو سیاسی یا ملکی سلامتی سے متعلق کسی معاملے جڑا ہو۔

اس کے مقابلے میں امریکہ یا یورپی یونین کے ممالک سفری پابندیاں جرائم میں ملوث بعض مشتبہ افراد پر عائد کرتے ہیں مگر سول معاملات میں ایسا نہیں ہوتا۔

چین نے گزشتہ ہفتے اپنے جاسوسی کے انسداد سے متعلق قانون میں بھی اصلاحات کیں جن کے تحت ایسے کسی بھی چینی یا غیر ملکی پر ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے جو زیر تفتیش ہو۔

ا ب ا/ا ا (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں