چین کی ’نیو سِلک روڈ پالیسی‘ کا متبادل یورپی منصوبہ
26 ستمبر 2018
چینی نیو سلک روڈ پالیسی ئی ملکوں میں ترقی کا باعث بن رہی ہے تو اس پر اعتراضات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین اس پالیسی کے تحت کئی ممالک کے ذخائر کے حصول کے لیے انہیں قرضے کے جال میں پھنسا رہا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین نے بعض ایشیائی ممالک میں چین کی ’نیو سلک روڈ پالیسی‘ کا متبادل متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک اِس نئی پالیسی کی منظور دیں گے اور اس کا نام ’ ایشیا کنکٹیویٹی اسٹریٹیجی‘ یا ایشیائی رابطہ کاری کی حکمت عملی رکھا گیا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اس اسٹریٹیجی کے حوالے سے رکن ملکوں کے علاوہ بعض ایشیائی ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔ موگیرینی کے مطابق رابطوں میں شریک ایشیائی ممالک نے اس یورپی اپروچ میں خاصی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کا بنیادی مقصد ایشیائی ممالک کی اقتصادی ترقی میں مضمر ہے کیونکہ اسی کی وجہ سے وہاں کی مقامی آبادیوں کو روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے اور مجموعی معاشی ترقی مقامی لوگوں کے لیے خوشحالی کا باعث بن سکے گی۔ موگیرینی نے ان ملکوں کے نام نہیں بتائے جن سے رابطہ کاری جاری ہے۔
اس پالیسی کے تحت یونین مختلف ایشیائی ملکوں میں ٹرانسپورٹ، ڈیجیٹل اور توانائی کے رابطوں کو ماحول دوست اور بین الاقوامی لیبر معیارات کے تحت آگے بڑھائے گی۔ یہ پالیسی کن ممالک میں متعارف کرائی جائے گی، اُن کے نام ابھی تک عام نہیں کیے گئے لیکن اندازوں کے مطابق بیشتر کا تعلق مشرق بعید کے قدرے کم ترقی یافتہ ممالک سے ہو سکتا ہے۔
اس پالیسی کو اگلے ماہ ایشیائی اور یورپی لیڈروں کی سمٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے حکام نے واضح کیا ہے کہ اُن کی نئی حکمت عملی کسی بھی طور پر چین کی ’نیو سلک روڈ‘ کے جواب میں شروع نہیں کی جا رہی۔ امکاناً یہ سمٹ یورپی یونین کے صدر دفتر برسلز میں منعقد کی جائے گی۔
دوسری جانب یہ بھی واضح ہے کہ اس کو ایسے وقت میں متعارف کرایا جا رہا ہے جب چین کی اربوں ڈالر کی پالیسی کی چمک ماند پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ کئی ممالک میں اس چینی پالیسی پر خدشات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ سری لنکا کے بعد رواں برس اگست میں ملائیشیا نے بھی بیجنگ کے شروع کردہ تین پراجیکٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کے مطابق نیو سلک روڈ پالیسی کے تحت مختلف ممالک کے ساتھ چین کی تجارت کا حجم پانچ ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ کئی ملکوں میں چین کی جانب سے ساٹھ بلین امریکی ڈالر سے زائد کی براہ راست سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔