1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو فورم میں پوٹن کی شرکت

17 اکتوبر 2023

عالمی سطح پر روس کو تنہا کرنے کی کوششوں کے درمیان پوٹن کے دورہ چین کوبیجنگ کی طرف سے ماسکو کی حمایت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو' کے فورم کے تحت 130 ممالک کے نمائندے بیجنگ میں جمع ہو رہے ہیں۔

روسی صدر پوٹن اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ
چین اور روس ایک علامتی اتحاد میں شریک ہیں، چین نے مغرب کے خلاف روس کے کردار کو سراہا ہے، جبکہ ماسکو اب تجارت اور جغرافیائی سیاسی پشت پناہی میں بیجنگ کی بڑی طاقت پر زیادہ انحصار کرتا ہےتصویر: SERGEI KARPUKHIN/AFP

یوکرین پر حملے کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر روس کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کے درمیان روس کے صدر ولادیمیر پوٹن منگل کے روز چین کے دورے پر پہنچے۔ بیجنگ میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنما اپنے تعلقات کو مزید تقویت دینے کی کوشش کریں گے۔ تاہم اس پر اسرائیل اور حماس جنگ کا سایہ بھی رہے گا۔

روس کی شرکت کے بغیر سعودی میزبانی میں یوکرین پر امن مذاکرات

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کی صبح مقامی وقت کے مطابق تقریبا ًساڑھے نو بجے ان کا جہاز بیجنگ میں اترا۔ یوکرین پر حملے کے بعد روسی صدر پہلی بار کسی بڑے ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔ 

شمالی کوریا کی یوم فتح تقریبات میں روسی اور چینی وفود کی شرکت

چین اس ہفتے صدر شی جن پنگ کے تاریخی منصوبے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو' کے فورم کے تحت دنیا کے 130 ممالک کے نمائندوں کا خیر مقدم کر رہا ہے۔ بیجنگ اس فورم کو اپنے عالمی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے۔

روسی جنگی جرائم کو ختم کرانا جرمنی کی ذمہ داری، بیئربوک

اس حوالے سے چین اپنے تیسرے بین الاقوامی فورم کی میزبانی کر رہا ہے، جس نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران مختلف براعظموں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے کچھ چھوٹے ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب بھی گئے ہیں۔

یوکرینی جنگ: چین روس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، شولس

اس بار اس فورم میں کم از کم 20 سربراہان مملکت اور حکومت شامل ہیں، جن کا تعلق جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی ترقی پذیر منڈیوں سے ہے۔

کریملن کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن بدھ کے روز بات چیت کے لیے چین صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس نے تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہا کہ ''بات چیت کے دوران، بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گیتصویر: Parker Song/Kyodo News/Pool/AP/dpa/picture alliance

روس نے اس دورے پر کیا کہا؟

کریملن کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن بدھ کے روز بات چیت کے لیے چین صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس نے تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہا کہ ''بات چیت کے دوران، بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔''

اس سے پہلے روس کے اعلیٰ سفارت کار پیر کو ہی بیجنگ پہنچ گئے تھے اور اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کی تھی۔

ماسکو سے ایک بیان کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس موقع پر پوٹن کو سربراہی اجلاس کے ''چیف گیسٹ'' کے طور پر مدعو کرنے پر چین کا شکریہ ادا کیا۔ روسی بیان کے مطابق وزیر خارجہ بیجنگ کے بعد شمالی کوریا جائیں گے۔

لاوروف نے اپنے چینی ہم منصب کو بتایا کہ پوٹن اور شی جن پنگ اس ہفتے جب ملاقات کریں گے تو باہمی تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔

چین نے کیا کہا؟

چینی وزیر خارجہ وانگ ایی نے اس موقع پر کہا کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے لیے روس کی حمایت کو ''سراہتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''دونوں فریقوں کو مل کر یاد رکھی جانے والی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اسٹریٹیجک باہمی اعتماد کو گہرا کرنا چاہیے اور اپنی روایتی دوستی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی نسل در نسل دوستی کو فروغ دینا چاہیے۔''

چین اور روس ایک علامتی اتحاد میں شریک ہیں، چین نے مغرب کے خلاف روس کے کردار کو سراہا ہے، جبکہ ماسکو اب تجارت اور جغرافیائی سیاسی پشت پناہی میں بیجنگ کی بڑی طاقت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔

چین کی جیلین یونیورسٹی کے بوورن الیگزینڈر ڈوبین نے اے ایف پی کو بتایا، ''جب سے ماسکو نے یوکرین پر حملے کا آغاز کیا ہے، تب سے وہ ایک ایسی پوزیشن میں آگیا ہے کہ جہاں وہ چین پر غیر معمولی طور پر انحصار کرتا ہے۔''

گہری ہوتی شراکت داری کا تعلق شی جن پنگ اور پوٹن کے درمیان گہرے تعلقات سے ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو ''پیارے دوست'' قرار دیتے ہیں۔

کریملن کے ایک بیان کے مطابق پوٹن نے اپنے دورے سے قبل چینی سرکاری نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا تھا کہ ''صدر شی جن پنگ مجھے اپنا دوست کہتے ہیں، اور میں بھی انہیں اپنا دوست کہتا ہوں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

کیا روس پر پابندیاں غیر مؤثر ثابت ہو رہی ہیں؟

04:57

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں