امریکا نے چین کے ان جوابی اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جن کے تحت امریکی مصنوعات پر اضافی درآمدی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔ کیا امریکا اور چین کے مابین تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے؟
اشتہار
اب امریکا کی طرف سے چینی جوابی اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی نائب ترجمان لنڈسے والٹرز کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’امریکا کی منصفانہ برآمدی مصنوعات کو نشانہ بنانے کی بجائے چین کو اپنی غیر منصفانہ تجارتی سرگرمیاں بند کرنا چاہییں، جن سے امریکی سلامتی اور عالمی منڈیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے متنازعہ درآمدی ٹیکسوں کے جواب میں چین نے بھی 128 امریکی مصنوعات کی درآمد پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے ہیں اور ان کا نفاذ پیر دو اپریل سے ہو چکا ہے۔ چین کی طرف سے لگائے گئے ان ٹیکسوں کی مالیت تین بلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
قبل ازیں امریکا نے چینی اسٹیل اور المونیم پر اضافی محصولات عائد کیے تھے اور ان کی مالیت تقریباﹰ پچاس بلین ڈالر بنتی ہے۔ اس کے جواب میں چین کا کہنا تھا، ’’امریکا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی واضح خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح چینی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔‘‘
دوسری جانب امریکی کسانوں نے بھی واشنگٹن حکومت کے فیصلوں پر تنقید کی ہے۔ فری ٹریڈ گروپ نامی ایک تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’یہ امریکی کسانوں پر لگایا جانے والا ٹیکس ہے، جو تحفظ تجارت کی پالیسیوں کے نام پر نافذ کیا جا رہا ہے۔‘‘
چین اور امریکا کے مابین اس تجارتی جنگ کے آغاز نے سرمایہ کاروں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ انہیں خوف ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور دو بڑی طاقتوں کے مابین یہ تجارتی لڑائی تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ امریکی اور چینی اقدامات کے بعد بین الاقوامی اقتصادی منڈیوں میں خسارے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘