1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

چین کے صدر شی جن پنگ اہم دورے پر سعودی عرب میں

7 دسمبر 2022

شی جن پنگ اپنے دورے کے دوران خلیجی ریاستوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔ چینی رہنما کی کوشش ہو گی کہ وہ اپنے ملک کی توانائی کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ بیجنگ اس دورے کو ایک تاریخی سنگ میل قرار دے رہا ہے۔

China I Kronprinz Mohammed bin Salman in Peking
تصویر: Bandar Algaloud/AA/picture alliance

چین کے صدر شی جن پنگ بدھ کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچ گئے ہیں۔ چینی رہنما تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی عرب ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ ممالک بیجنگ کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اہم ہیں۔ چینی رہنما چھ سال بعد کیے جانے والے اس دورے میں سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔  اس دورے سے قبل بدھ کو سعودی دارالحکومت ریاض میں سعودی اور چینی پرچم لہرائے گئے۔ خلیجی عرب ریاستیں اپنی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ امریکہ دنیا کی دوسری جگہوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے۔

شی جن پنگ دورے کے دوران دیگر خلیجی ریاستوں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کریں گےتصویر: STEPHEN SHAVER/UPI/IMAGO

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اور ماسکو پر مغرب کے سخت موقف نے بھی عرب ممالک کو چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا موقع دیا ہے۔ اپنے دورے کے دوران شی جن پنگ کی چین عرب ریاستوں کے افتتاحی اجلاس اور خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت متوقع ہے، جس میں سعودی عرب کے ساتھ بحرین، کویت، عمان، قطر ،متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔

 'ایک تاریخی دورہ‘

 اگرچہ اس دورے کے بارے میں کچھ دیگر تفصیلات سامنے آئی ہیں لیکن چینی حکام نے اس دورے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ انہوں نے اس دورے کو  چین کے قیام کے بعد سے بیجنگ اور عرب دنیا کے درمیان سب سے بڑا اور اعلیٰ ترین سفارتی واقعہ قرار دیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے بدھ کو روزانہ کی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ دورہ چین اور چین عرب تعلقات کی تاریخ میں ایک عہد ساز سنگ میل بن جائے گا۔

صدر شی جانتے ہیں کہ انہیں خام تیل کی سپلائی کی ضرورت ہے۔ چین  دنیا کا سب سے بڑا خام تیل درآمد کرنے والا  ملک ہے اور اس کا سعودی تیل پر بہت  انحصار بہت زیادہ ہے۔ سعودی عرب  کو تیل کی اس فروخت سے سالانہ دسیوں ارب ڈالر وصول ہو رہے ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان شی جن پنگ کے دورے کو اپنے بین الاقوامی پروفائل کی بہتری کے موقع کے طور پر استعمال کر سکتےہیںتصویر: SPA/dpa/picture alliance

دوطرفہ 'ضروریات‘

  شہزادہ محمد بن سلمان پر  واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل سے منسلک ہونے کے الزاما ت کے بعد  ان کی طرف سے چینی صدر کی میزبانی سعودی ولی عہد کی بین الاقوامی شبیہہ میں فروغ کا سبب بنتی ہے۔ چین کی تیل کی خریداری کے علاوہ اس کی تعمیراتی مہارت کو بحیرہ احمر پر سعودی ولی عہد کے 500 بلین ڈالر کے مستقبل کے شہر نیوم کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

چینی تعمیراتی فرموں نے متحدہ عرب امارات کے دبئی سمیت خلیج فارس کے متعدد عرب ممالک میں کام کیا ہے۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات کے حامل سعودی عرب  نے بھی چین کو ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے بارے میں اس کی سخت پالیسیوں پر سیاسی ڈھال فراہم کی ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ اقلیتی مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے ار انہیں اسلام کی مذمت کرنےکے ساتھ ساتھ صدر شی اور کمیونسٹ پارٹی  کے ساتھ وفاداری کی قسم کھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔

چین میں زیرو کووڈ پالیسی کے خلاف حالیہ مظاہروں کو صدر شی جن پنگ کے دور اقتدار کے لیے اب تک کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیاتصویر: Thomas Peter/REUTERS

شی جن پنگ کے عالمی پروفائل کی بحالی

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران صدر شی جن پنگ نے اپنا زیادہ وقت چین کے اندر رہ کر ہی گزارا ہے۔ ایسے میں یہ دورہ ان کے لیے بھی ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے عالمی پروفائل کو بحال کریں۔ یہ دورہ 2020 کے اوائل کے بعد سے ان کا تیسرا غیر ملکی دورہ ہے۔  وہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں  کر رہے ہیں جب انہیں اکتوبر میں بطور رہنما تیسری پانچ سالہ مدت دی گئی تھی۔ اس کے بعد انہیں اپنی زیرو کووڈ پالیسی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجکا سامنا کرنا پڑا ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اب تک شی کی  حکمرانی کے لیے سب سے اہم چیلنج تھا۔

   پولیٹیکل رسک کنسلٹنسی یوروایشیا گروپ نے اپنی  ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے۔ اس وجہ سے  شی جن پنگ کا دورہ اس سال کے اوائل میں امریکی صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کی نسبت خاصہ مثبت ہوگا۔   تاہم اس رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتحال کے باوجود بھی  دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات جتنی گہرائی میں جانے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

ش ر ⁄ ک م (اے پی)

امریکا کا چین سے نمٹنے کا معاملہ جرمنی کا محتاج کیسے؟

02:35

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں