چین ایشیا اور افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے اپنے رابطے استوار کرنے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ مغربی اقوام اس عمل میں پیچھے رہ گئی ہیں۔
اشتہار
سن 2017 میں پہلے بیلٹ اینڈ روں فورم میں چینی صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ اقوام عالم کے ڈیٹا کو بیلٹ اینڈ روڈ نامی منصوبے میں ضم کر کے اسے اکیسویں صدی کا ڈیجیٹل سلک روڈ کے طور پر عالمی منظر پر لایا جائے گا۔ صرف دو برسوں کے بعد ہی یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے قریب ہے۔ جمعرات سے چین میں شروع بیلٹ ایڈ روڈ فورم میں ڈیجیٹل سلک روڈ میں چینی ٹیلی کام نے عالمی کاروباری لیڈروں کی جانب سے سرمایہ کاری کے امکانات کو واضح کیا ہے۔
حین اس ڈیجیٹل سلک روڈ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ عالمی مالی منڈیوں کو بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل ممالک کے مختلف شہروں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ اس ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے سیٹیلائٹ کوریج میں سہولت میسر آئے گی۔ یہ بھی اہم ہے کہ مغربی اقوام کی بڑی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل چھوٹے ممالک میں کوئی مسابقت میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
اسٹریٹیجک ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں چین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر تعمیر کر کے زمین کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنے اثر میں لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس عمل کی تکمیل پر چین سائبر اسپیس میں اپنی حاکمیت قائم کر کے اپنے اصول و ضوابط متعارف کر سکے گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین بڑی تیز رفتاری کے ساتھ انتہائی برق رفتار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فائیو جی ٹیکنالوجی کے نیٹ ورک پر مبنی نظام کو فعال کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس نظام کی تکمیل پر ڈیجیٹل سلک روڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک سپر ہائی وے میں تبدیل ہو جائے گی۔
رواں برس فروری تک چینی کے بڑے ٹیلی کام ادارے ہواوے کے پاس فائیو جی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی پندرہ سو انتیس ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز کے جملہ حقوق رکھتی ہے۔ یہ کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں اگر ایک اور چینی ٹیلی کام کمپنی زیڈ ٹی آر کو بھی شامل کر لیا جائے تو چینی کمپنیاں چھتیس فیصد جدید ترین فائیو جی ٹیکنالوجی ڈیوائسز کے حقوق کی مالک ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ افریقی ملک زیمبیا میں چینی کمپنی ہواوے ٹیلی مواصلاتی انفراسٹرکچر بچھانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو چینی ای کامرس کے بڑے ادارے علی بابا اور ٹین سینٹ مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ چینی ٹیلی مواصلاتی کمپنیاں فائیو جی ٹیکنالوجی کے آلات مغربی اقوام کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت پر فراہم کر رہی ہیں۔
اس کے بھی اندازے لگائے گئے ہیں کہ چین اور امریکا کا تجارتی تنازعہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو چین بیلٹ اینڈ روڈ ممالک میں ٹیلی مواصلاتی رابطوں کے لیے ایک علیحدہ نظام استوار کر سکتا ہے۔
چین اور تائیوان: بظاہر دو بہترین دشمن؟
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔