چین ’ہر کسی کے لیے سود مند‘ کثیرالفریقی عالمی نظام کا حامی
16 فروری 2019
عوامی جمہوریہ چین نے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت ایک ایسے کثیرالفریقی عالمی نظام کی حامی ہے، جو ’ہر کسی کے لیے سود مند‘ ہو۔ یہ بات جرمن شہر میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میں آج تک شرکت کرنے والے اعلیٰ ترین چینی عہدیدار نے کہی۔
اشتہار
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میں جاری سالانہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شریک چینی نمائندے یانگ جی ایچی نے آج ہفتہ سولہ فروری کو اس کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا کہ بیجنگ حکومت بین الاقوامی سطح پر تعاون کے ایسے ایک نظام کی بھرپور حامی ہے، جس میں کثیرالفریقی اور کثیر الجہتی سوچ کو مدنظر رکھا گیا ہو۔
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
16 تصاویر1 | 16
یانگ جی ایچی چین کے خارجہ امور کے ڈائریکٹر ہیں اور وہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں آج تک شرکت کرنے والے اعلیٰ ترین چینی حکومتی اہلکار ہیں۔
انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا، ’’دنیا آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے، جہاں اسے تنازعات کے حل، باہمی مکالمت، مختلف ممالک کو الگ تھلگ کر دینے کے خلاف اور کھلے پن کی سوچ اپنانے کے سلسلے میں یک فریقی اور کثیرالفریقی نظاموں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ چین کثیرالجہتی اور کثیرالفریقی عالمی نظام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل کا حل اسی طرح نکالا جا سکتا ہے۔
مداخلت کی مخالفت
کانفرنس کے شرکاء سے یانگ جی ایچی کے چینی زبان میں خطاب کے انگریزی ترجمے کے متن کے مطابق انہوں نے اس امر کی بھی مخالفت کی کہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں کسی بھی دوسری ریاست کی طرف سے کوئی مداخلت کی جائے۔ آج کی دنیا میں چین اپنا کردار کس طرح ادا کر رہا ہے، اس بارے میں بیجنگ حکومت کے خارجہ امور کے ڈائریکٹر نے کہا، ’’ہم ہر کسی کے لیے سود مند تعاون کی صورت میں عالمی امن اور ترقی کو فروغ دے رہے ہیں۔‘‘
آج تک کا سب سے بڑا چینی وفد
میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اس سال بھی دنیا بھر سے سیاسی اور سفارتی شعبوں کی سینکڑوں انتہائی اہم شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔ اس مرتبہ اس کانفرنس میں چینی وفد بھی بیجنگ کی طرف سے اس اجتماع کے لیے آج تک جرمنی بھیجا جانے والا سب سے بڑا وفد ہے۔
کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتے ہوئے یانگ جی ایچی نے مزید کہا، ’’ہر ملک نے اپنے لیے ترقی کے راستے کا انتخاب خود کیا ہے، جس کا ہر حال میں احترام کیا جانا چاہیے۔‘‘
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس اعلیٰ چینی حکومتی عہدیدار نے یہ بات چین میں انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال پر بیرونی دنیا کی طرف سے کی جانے والی شدید تنقید کے ردعمل میں کہی۔
م م / ش ح / ڈی پی اے
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔