1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: ہوٹل منہدم ہونے سے متعدد افراد ہلاک

13 جولائی 2021

چین کے مشرقی شہر سوزو میں اتوار کی سہ پہر منہدم ہوجانے والے ہوٹل سے اب تک آٹھ لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ تقریباً دو درجن دیگر افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ حادثے کا سبب اب تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

China Hotel-Einsturz Suzhou
تصویر: Li Bo/Xinhua News Agency/picture alliance

مقامی حکام نے سرکاری سوشل میڈیا پر منگل کے روز بتایا کہ سیجی کائے یووان ہوٹل پیر کی سہ پہر کو منہدم ہو گیا۔ ہوٹل کے ملبے سے سات افراد کو بچا لیا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے بیشتر افراد ہوٹل میں مقیم مہمان تھے۔

حکام نے پہلے کہا تھا کہ ملبے سے چودہ افراد کو نکال لیا گیا ہے تاہم'نئی اطلاعات اور تجزیے کی بنیاد پر‘  ٹوئٹ کرکے کہا کہ سات افراد کو ملبے سے نکال لیا گیا ہے۔ انہوں نے حادثے کا کوئی سبب نہیں بتایا۔

سفر و سیاحت سے متعلق ویب سائٹ سی ٹرپ کے مطابق یہ بجٹ ہوٹل سن 2018 میں کھلا تھا اور اس میں 54 کمرے ہیں۔

بچاو عملے کے چھ سو سے زیادہ کارکنوں اور 120 گاڑیوں کو ریسکیو آپریشن میں لگایا گیا ہے۔  ملبے تلے دبے لوگوں کا پتہ لگانے اور انہیں بچانے کے لیے کرین، سیڑھیوں اور دیگر آلات کے علاوہ جاسوس کتوں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔

تصویر: CNS/AFP

چین میں عمارتوں کا منہدم ہوناعام بات ہے

ہوٹل کے منہدم ہونے کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے اور حکام اس حادثے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

چین میں عمارتوں کا منہدم ہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ وہاں عمارتوں کے حوالے سے ضابطوں میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔

گزشتہ ماہ ہنان صوبے میں مارشل آرٹ کے ایک ٹریننگ سینٹر میں آگ لگنے کے واقعے میں کم از کم اٹھارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

چین:  مارشل آرٹ سینٹر میں آگ لگنے سے 18افراد ہلاک

اسی برس مارچ میں جنوبی شہر کوانزو میں ایک ہوٹل کی عمارت منہدم ہوجانے سے 29 افراد کی موت ہو گئی تھی۔ اس ہوٹل کی تین منزلیں غیر قانونی طو ر پر تعمیر کی گئی تھیں۔

تصویر: CNS/AFP

سوزو شہر کی آبادی بارہ ملین سے زیادہ ہے۔ یہ شنگھائی سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور مغرب میں واقع ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔ سیاح صدیوں پرانی نہروں اور باغات کو دیکھنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں