چیچن اور تاتار مسلمان یوکرین میں روس کے ساتھ نہیں بلکہ خلاف
22 مارچ 2022
یوکرین کی جنگ میں چیچن اور تاتار مسلم جنگجوؤں کا کییف کی حمایت میں لڑنا ماسکو کے دعووں کی نفی کرتا ہے۔ حقیقت اس روسی موقف کے برعکس ہے کہ یوکرینی جنگ میں چیچنیا اور دیگر روسی ریاستوں کے مسلمان یوکرین کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنی پروپیگنڈا مہم کو زیادہ قابل اعتماد بنانے اور یوکرینی عوام اور افواج کو ڈرانے کے لیے چیچنیا کے حکمران جنگی رہنما کا استعمال کیا لیکن یوکرین میں چیچن اور دیگر روسی مسلم جنگجوؤں کا کییف کی طرف سے روس کے خلاف لڑائی میں شامل ہونا صدر پوٹن کے اس حوالے سے دعووں کی تردید کرتا ہے۔
پوٹن نے ماسکو نواز چیچن فائٹر یوکرین کیوں بھیجے؟
جب چوبیس فروری کے روز روسی فوج نے یوکرین میں مسلح مداخلت کی، تو اس کے ساتھ آنے والے چیچن جنگجوؤں کے دستے اس تنازعے کے لیے خاص طور پر ایک بری خبر سمجھے گئے تھے۔ تب یہ کہا گیا تھا کہ چیچنیا اور شام کی جنگوں میں خونریز جھڑپوں کے بعد مختلف شہروں پر عسکری قبضے کے لیے استعمال ہونے والے اور بے دھڑک لڑنے والے ان فائٹرز کا کریملن کی طرف سے استعمال روس کو یوکرین کے بڑے شہروں پر فوری قبضے میں مدد دے گا اور کم از کم یوکرینی شہروں میں لڑی جانے والی جنگ تو روس جیت ہی جائے گا۔
چیچن جنگجوؤں کے ان دستوں کا سربراہ رمضان قدیروف کو بنایا گیا تھا، جو روسی صدر پوٹن کے انتہائی قریبی اتحادیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تب رمضان قدیروف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر اپنے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ان کے جنگجو ''یوکرین کے اہم ترین جنگی محاذوں پر‘‘ لڑیں گے۔
روس مخالف چیچن جنگجو
لیکن پھر ساتھ ہی چیچن جنگجوؤں کا ایک اور بڑا دھڑا بھی میدان میں آ گیا تھا۔ اس دھڑے کی اس جنگ میں شمولیت کا مقصد روسی فوجی مداخلت کے خلاف اور یوکرینی دستوں کے شانہ بشانہ لڑنا تھا۔ روس کی مسلم اکثریتی جمہوریہ چیچنیا کے ایک جلاوطن رہنما آدم عثمائیف نے روسی صدر پوٹن کی طرف سے یوکرین بھیجے گئے چیچن جنگجوؤں کے بارے میں اپنی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ''عزیز یوکرینی باشندو، ان جنگجوؤں (رمضان قدیروف کے فائٹرز) کو چیچن نہ سمجھنا۔ یہ غدار ہیں، روسی کٹھ پتلیاں۔‘‘
اسی ویڈیو پیغام میں آدم عثمائیف نے مزید کہا، ''حقیقی چیچن تو وہ ہیں، جو آج بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنا خون بہا رہے ہیں، اسی طرح جیسے وہ گزشتہ آٹھ سال سے کرتے آ رہے ہیں۔‘‘ آدم عثمائیف اس ویڈیو میں جب اپنا پیغام ریکارڈ کرا رہے تھے، تو انہوں نے ہاتھ میں ایک گن بھی پکڑی ہوئی تھی اور ان کے ساتھ اپنے چہروں پر ماسک پہنے ہوئے تین دیگر مسلح افراد بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
جوہر دودائیف بٹالین کے سربراہ
آدم عثمائیف چیچن عسکری رضا کاروں کے عوامی سطح پر مشہور ان دو بڑے گروپوں میں سے ایک، جوہر دودائیف بٹالین کے کمانڈر ہیں، جو 2014ء سے لے کر اب تک یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ یوکرینی علیحدگی پسندوں اور روسی دستوں کے خلاف لڑتے آ رہے ہیں۔ ان گروپوں میں سے دوسرے کا نام شیخ منصور بٹالین ہے، اور اس کا سربراہ مسلم خیبرلووسکی نامی ایک چیچن کمانڈر ہے۔
جب صدر پوٹن کے حکم پر روسی فوج نے یوکرین میں مداخلت کے ساتھ ہی کییف کی طرف اپنی پیش قدمی بھی شروع کی تھی، تو ان دونوں چیچن فائٹر بٹالینز کے سربراہان نے فوراﹰ ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے ہزارہا غیر ملکی رضاکار جنگجوؤں کے ساتھ اور ''مشترکہ دشمن کے خلاف‘‘ آئندہ بھی یوکرین کے دفاع کے لیے لڑتے رہیں گے۔
چیچن جنگجوؤں کی اصل تعداد کتنی؟
یوکرین میں کییف حکومت کے دستوں کی حمایت میں لڑنے والے چیچن جنگجوؤں کی اصل تعداد اور ان کی اکثریت کی شناخت غیر واضح ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے فائٹر ہیں، جو یا تو 2003ء کی چیچنیا کی جنگ کے بعد وہاں سے نکل گئے تھے یا جنہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران موجودہ چیچن رہنما رمضان قدیروف کے آمرانہ طرز حکومت کے باعث اس روسی جمہوریہ سے رخصتی کا فیصلہ کیا تھا۔
ان چیچن جنگجوؤں کے یوکرین کی مدد کرنے کے عزم کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ وہ روسی فوجی مداخلت کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ چیچنیا اور یوکرین کے حالات میں اپنے لیے بہت مماثلت دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آج یوکرینی عوام کو بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس طرح کے حالات کا سامنا ماضی میں وہ خود بھی کر چکے ہیں۔
اشتہار
تشدد سے عبارت طویل تاریخ
آج کا چیچنیا وفاق روس کی جمہوریاؤں میں سے ایک ہے اور اس کی آبادی میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ لیکن چیچنیا کے ماسکو کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بہت ہی پیچیدہ اور اکثر بہت خونریز واقعات سے بھری رہی ہے۔
سابق سوویت یونین کی تقسیم کے ساتھ ہی جب چیچنیا نے اپنی آزادی کی مسلح جدوجہد شروع کی، تو نتیجہ دو بڑی اور بہت تباہ کن جنگوں کی صورت میں نکلا۔ پہلا تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب روسی دستوں نے چیچن جمہوریہ اِشکیریا پر حملہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد 1997ء میں ایک امن معاہدے کے نتیجے میں اس جنگ میں وقفہ آ گیا تھا مگر 1999ء میں روسی فوج دوبارہ اِشکیریا میں داخل ہوئی تو پھر ایک نئی جنگ چھڑ گئی تھی۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
اس دوسری جنگ کے نتیجے میں چیچن دارالحکومت گروزنی کا محاصرہ بھی کر لیا گیا تھا اور نہ صرف چیچنیا میں وسیع تر تباہی ہوئی تھی بلکہ ہزارہا انسان مارے بھی گئے تھے۔
پوٹن کے اقتدار میں آنے کے بعد کیا ہوا؟
یہ چیچنیا کی جنگ کے آخری برسوں میں ہی ہوا تھا کہ سن دو ہزار کی پہلی دہائی کے شروع میں ہی روس میں ولادیمیر پوٹن اقتدار میں آ گئے تھے۔ وہ اپنی پالسییوں کے ذریعے نہ صرف چیچن علیحدگی پسندی کو کچل دینے میں کامیاب ہو گئے تھے بلکہ انہوں نے اس روسی جمہوریہ میں اپنی حامی ایک کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کر دی تھی۔ موجودہ چیچن حکمران رمضان قدیروف اسی حکومت کے تسلسل کے بعد خود کو ملنے والی پوزیشن کے نتیجے میں ہی اقتدار میں آئے تھے۔
یہ وہ پس منظر ہے، جو سمجھ میں آ جائے، تو انسانی حقوق کی وسیع تر خلاف ورزیوں اور اپنے ناقدین سے لے کر صحافیوں تک کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والے موجودہ چیچن رہنما رمضان قدیروف کا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا انتہائی قریبی سیاسی اتحادی اور حامی ہونا بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔
منیر غائدی (م م / ک م)
پوٹن کے بلیک لسٹ ارب پتی دوست کون ہیں؟
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے جواب میں مغربی ریاستوں نے روس کی معیشت اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اندرونی حلقے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
تصویر: Christian Charisius/dpa/picture alliance
ایگور سیشین
سیشین روس کے سابق نائب وزیر اعظم اور سرکاری تیل کمپنی روزنیفٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر ہیں۔ یورپی یونین کی پابندیوں کی دستاویز میں انہیں پوٹن کے "قریب ترین مشیروں اور ان کے ذاتی دوست" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیشین روس میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ کریمیا کے استحکام کی حمایت کرتے ہیں۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Russian Presidential Press and Information Office/TASS/picture alliance
الیکسی مورداشوف
مورداشوف نے روس میں سب سے بڑی نجی میڈیا کمپنی، نیشنل میڈیا گروپ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ میڈیا ہاؤس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے اس ارب پتی کا کہنا تھا کہ "موجودہ جغرافیائی سیاسی تناؤ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'' مورداشوف نے جنگ کو ''دو برادرانہ عوام کا المیہ'' قرار دیا۔
تصویر: Tass Zhukov/TASS/dpa/picture-alliance
علیشیر عثمانوف
ازبکستان میں پیدا ہونے والے عثمانوف دھاتوں اور ٹیلی کام کے ٹائیکون ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق عثمانوف پوٹن کے پسندیدہ اولیگارکس یا طبقہؑ امراء میں سے ایک ہیں۔ یورپی یونین نے الزام لگایا کہ اس ارب پتی نے "صدر پوٹن کا بھر پور دفاع کیا ہے اور ان کے کاروباری مسائل حل کیے ہیں۔" امریکہ اور برطانیہ نے بھی عثمانوف کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Kremlin/Sputnik/REUTERS
میخائل فریڈمین اور ایون
یورپی یونین کے بیان میں فریڈمین کو "ایک اعلیٰ روسی سرمایہ کار اور پوٹن کے اندرونی حلقے کا سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔" خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فریڈمین اور ان کے قریبی ساتھی پیوٹر ایون نے تیل، بینکنگ اور ریٹیل سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایون ان دولت مند روسی تاجروں میں سے ایک ہے جو کریملن میں پوٹن سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔
تصویر: Mikhail Metzel/ITAR-TASS/imago
بورس اور ایگور روٹنبرگ
روٹنبرگ کا خاندان پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بورس ایس ایم پی بینک کے شریک مالک ہیں، جو توانائی کی فرم گیز پروم سے منسلک ہے۔ ان کے بڑے بھائی آرکیڈی، جو پہلے ہی یورپی یونین اور امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں، پوٹن کے ساتھ نوجوانی سے جوڈو کی مشق کر رہے ہیں۔ بورس اور ایگور روٹنبرگ کو برطانیہ اور امریکہ نے بھی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Sergey Dolzhenko/epa/dpa/picture-alliance
گیناڈی ٹمچینکو
ٹمچینکو بینک روسیا کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز کے مطابق یہ بینک روسی فیڈریشن کے سینئر حکام کا ذاتی بینک سمجھا جاتا ہے۔ بینک نے ان ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی روسی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ بینک روسیا نے کریمیا میں اپنی شاخیں بھی کھولی ہیں۔ اور یہ بینک کریمیا کے غیر قانونی الحاق کی حمایت کرتا ہے
تصویر: Sergei Karpukhin/AFP/Getty Images
ضبط شدہ کشتیاں
نئی پابندیوں میں پوٹن کے قریبی دوستوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں بھی روس کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی کئی لگژری کشتیاں پکڑی گئی ہیں۔ سیشین، عثمانوف اور ٹمچینکو ان ارب پتیوں میں شامل تھے جن کی کشتیاں ضبط کی گئی تھیں۔ مونیر غیدی (ب ج، ع ح)