چیچن رہنما رمضان قدیروف پر امریکی پابندیوں میں اضافہ
21 جولائی 2020
امریکی انتظامیہ نے روس کے جنوبی علاقے چیچنیا پر حکومت کرنے والے روسی حمایت یافتہ مسلم رہنما رمضان قدیروف پر ''انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں '' کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
امریکا کا کہنا ہے کہ چیچنیا میں روسی حمایت یافتہ حکمراں رمضان قدیروف کورونا وائرس کی وبا کا بہانہ بنا کر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن روس ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ روسی صدر پوٹن کے اتحادی قدیروف چیچن عوام کو کچلنے اور ان کے حقوق کی پامالی کے لیے کورونا وائرس جیسی وبا کا سہارا لے رہے ہیں۔
مائیک پومپیؤ کا کہنا تھا کہ امریکا واضح طور پر رمضان قدیروف کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب مانتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس محکمے کے پاس ایسی کافی معتبر معلومات ہیں کہ قدیروف ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ سے ہونے والی انسانی حقوق کی متعدد سنگین خلاف ورزیوں کے ذمے دار ہیں، جن میں تشدد، زد و کوب، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں شامل ہیں۔''
اس سے قبل امریکا نے پوٹن کے حامی چیچن حکمراں قدیروف کو میگنٹسکی ایکٹ کے تحت بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ سن 2012 میں یہ قانون ایک روسی کارکن سرگئی میگنٹکسی کے نام پر وضع کیا گیا تھا جنہیں جیل میں ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ان روسی افراد پر ویزا کی پابندی اور ان کی جائیداد کی ضبطی کی جا سکتی ہے جو قتل میں ملوث ہوں۔
چیچن رہنماقدیروف نے ان پابندیوں کے رد عمل میں کہا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر اپنی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے، جس میں وہ مشین گن کے ساتھ مسکرا رہے ہیں، لکھا، ''پومپیؤ ہم اس لڑائی کو قبول کرتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ ہوگی۔''
روسی رہنما لیونڈ سلٹزکی نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ماسکو بھی ان پابندیوں کا جواب دے گا۔ ''قدیروف کو بلیک لسٹ کرنے کی وجوہات بے بنیاد ہیں۔ روس ان پابندیوں کا جواب دے گا، امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بار پھر سے یہ ایک غیر قانونی فیصلہ ہے۔''
43 سالہ قدیروف سن 2007 سے چیچنیا پر حکومت کر رہے ہیں اور دو مختلف جنگوں کے بعد سے روسی انتظامیہ خطے میں استحکام کے لیے انہیں پر اعتماد کرتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں قدیروف کی نگرانی میں مخالفین کا اغوا، ٹارچر اور ان کے قتل کا الزام لگاتی رہی ہیں۔''
انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں چیچنیامیں تقریبا ًسو ہم جنس پرستوں کی گرفتاری، ان کو زد و کوب کرنے اور قتل کرنے کا الزام بھی چیچن حکام پر عائد کرتی ہیں۔ لیکن چیچنیاکے حکام ان الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔ روسی حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی ایجنسیوں نے بھی اس معاملے کی تفتیش
کی ہے تاہم انہیں بھی اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ص ز / ج ا (اے پی ڈی، پی اے)
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔