جرمن پولیس کے مطابق نوجوان مصری تارک وطن نائٹ ٹرین میں سیٹوں کے درمیان چھپا ہوا تھا۔ پولیس نے جب اس سے شناختی دستاویزات طلب کیں تو اس نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی جس کے باعث وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق چلتی ہوئی ٹرین سے کودنے کے باعث ایک نوجوان تارک وطن جان کی بازی ہار گیا۔ یہ واقعہ آج جمعہ گیارہ مارچ کے روز علی الصبح آسٹریا اور جرمنی کی سرحد کے قریب پیش آیا۔
رپورٹوں کے مطابق سترہ سالہ نوجوان تارک وطن مصری شہری تھا۔ مذکورہ تارک وطن آسٹریا سے جرمنی آنے والی نائٹ ٹرین میں سوار تھا۔
نوجوان حکام کی نظروں سے بچنے کے لیے ٹرین کی سیٹوں کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ نشاندہی پر پولیس اس کے پاس پہنچی اور اس سے شناختی دستاویزات طلب کیں تو اس نے آسٹریا سے جاری کردہ دستاویزات مہیا کیں۔
نوجوان نے آسٹریا میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔ جرمن پولیس اہلکار اس کی شناختی دستاویزات کا جائزہ لے رہے تھے اس دوران نوجوان بھاگ کر ٹرین کے دوسرے کمپارٹمنٹ میں چلا گیا۔
ٹرین میں سوار دو امریکی خواتین کے مطابق، جو اس واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں، نوجوان بھاگتا ہوا دوسرے کمپارٹمنٹ میں آیا اور ٹرین کی کھڑکی کھول کر چلتی ہوئی ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔
واقعے کے فوراﹰ بعد ٹرینوں کی آمد و رفت معطل کر دی گئی اور ٹرین ٹریک سے نوجوان لاش پولیس نے تحویل میں لے لی۔
جرمنی کی وفاقی پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان نے کچھ ہفتے قبل بھی ٹرین کے ذریعے جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم پولیس نے اسے گرفتار کر کے واپس آسٹریا بھیج دیا تھا۔
جرمنی جنگوں اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے تارکین وطن کی پسندیدہ منزل ہے۔ گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔
2016ء کے ورلڈ پریس ایوارڈ میں ہجرت اور نقل مکانی کا موضوع سرفہرست رہا۔ جنگوں اور غربت کے ہاتھوں مجبور لاکھوں مہاجرین کے یورپ کی جانب سفر کے دوران کئی ایسے اندوہناک مناظر دیکھنے میں آئے جو انسانیت کے لیے باعث شرمندگی ہیں۔
تصویر: Mary F. Calvert
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
ہنگری کی سرحد پر نصب خاردار تاروں کے نیچے سے ایک نوزائیدہ بچے کو دوسری طرف منتقل کرتے ہوئے تارک وطن کی اس تصویر کا عنوان ’نئی زندگی کی امید‘ ہے۔ اس تصویر کو پہلا انعام دیا گیا۔ آسٹریلوی صحافی وارن رچرڈسن نے یہ تصویر 28 اگست 2015ء کو اپنے کیمرے میں محفوظ کی تھی۔
تصویر: Warren Richardson
سمندر میں انسانوں کا سمندر
روس کے سرگئی پونوماریف نے یہ تصویر دی نیویارک ٹائمز کے لیے یونانی جزیرے لیسبوس میں کھینچی تھی۔ ترک ساحلوں سے یونانی جزیروں تک کے اس مختصر مگر پرُخطر راستے میں اب تک سمندر ہزاروں انسانوں کو نگل چکا ہے۔
تصویر: Sergey Ponomarev/The New York Times
کم سنی، مسافت اور بے وطنی
پلاسٹک کی برساتی اوڑھے ایک پناہ گزین بچی سربیا میں تارکین وطن کے ایک کیمپ میں اپنی رجسٹریشن کی منتظر ہے۔ سربیا سے تعلق رکھنے والے ماٹک زورمان نے یہ تصویر سات اکتوبر 2015ء کو کھینچی تھی۔ یورپ کی جانب گامزن تارکین وطن کے ہمراہ لاکھوں بچے بھی دشوار گزار ’بلقان روٹ‘ سے گزر کر جرمنی اور دیگر ممالک پہنچے تھے۔
تصویر: Matic Zorman
طوفاں میں گھر گیا ہوں کہ طوفاں کا جزو ہوں؟
آسٹریلوی شہری روہان کیلی کی کھینچی گئی یہ تصویر چھ نومبر 2015ء کو کھینچی گئی تھی۔ سڈنی کے ساحل پر لی گئی اس تصویر میں بادلوں کا سونامی ساحل کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ایک خاتون اس سے بے خبر ساحل پر لیٹ کر اپنی کتاب پڑھ رہی ہے۔
تصویر: Rohan Kelly/Daily Telegraph
داعش کا سولہ سالہ جہادی
برازیل سے تعلق رکھنے والے ماؤریسیو لیما کی اس تصویر کو ’جنرل نیوز‘ کے زمرے میں پہلا انعام دیا گا۔ تصویر میں نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ سے تعلق رکھنے والے ایک سولہ سالہ جھلسے ہوئے لڑکے کا علاج کیا جا رہا ہے۔ پس منظر میں کردستان ورکرز پارٹی کے سربراہ کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: Mauricio Lima/The New York Times
جنسی تشدد کی شکار امریکی فوجی
21 مارچ 2014 کو کھینچی گئی اس تصویر کو طویل مدتی پراجیکٹ کے زمرے میں ایوارڈ دیا گیا۔ یہ تصویر اکیس سالہ امریکی خاتون فوجی نتاشا شوئے کی ہے۔ نتاشا نے دوران ٹریننگ اپنے سارجنٹ کی جانب سے جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعے کی اطلاع حکام کو دی تھی۔