1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چیک جمہوریہ میں تاریخی فوجی بنکرز برائے فروخت

27 ستمبر 2021

چیک جمہوریہ کی فوج نے اپنے ہزاروں فوجی بنکرز کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان کو اس دور میں تعمیر کیا گیا تھا جب جرمنی میں نازی حکومت قائم تھی۔

Tschechien Festungsanlagen
تصویر: Freiwilligengemeinschaft der Freunde der tschechoslowakischen Befestigungen - Festung Hůrka

سن 1930 کے دور میں اس وقت کے چیکوسلوواکیہ نے جرمن سرحد کے قریب دفاعی مورچوں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا مقصد نازی جرمن حکومت کے کسی ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ نازی حکومت کی جارحیت سے قبل ایک ایسا دفاعی نظام استورا کر دیا جائے کہ ضرورت پڑنے پر فوجیوں اور ریزرو عملے کو فورا متحرک کیا جا سکے۔

چیک جمہوریہ: ’اسلام کی تبلیغ کی تو قتل ہو جاو گے‘

یہ سرحدی مورچے سن 1938 تک مکمل نہیں ہو سکے تھے اور اس کی ایک وجہ سرحدی علاقوں میں اونچی نیچی پہاڑیاں تھیں۔ یہ پہاڑیاں بھی ایک طرح سے دفاع میں کلیدی اہمیت کی حامل خیال کی گئی تھیں۔

ان مضبوط دفاعی بنکرز کی تکمیل کے بعد سابقہ چیکوسلوواکیہ نے گیارہ لاکھ فوج کو متحرک کر دیا تاکہ وہ کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے۔

نازی جرمن فوجی سن 1938 میں سابقہ چیکو سلوواکیہ کے فوجی بنکروں کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: Archiv Freiwilligengemeinschaft der Freunde der tschechoslowakischen Befestigungen

 حیران کن دہچکا

انتیس اور تیس ستمبر سن 1838 کو برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین اور ان کے فرانسیسی ہم منصب ایڈوارڈ ڈالڈیئر نے میونخ میں اڈولف ہٹلر کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اس کے تحت پراگ حکومت کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ اپنے قریب قریب سارا سرحدی علاقہ جرمنی کے حوالے کر دے۔ ان علاقوں میں جرمن زبان بولنے والی اقلیت آباد تھی۔

چیک جمہوریہ میں مخملیں انقلاب کا جذبہ تیس سال بعد بھی زندہ

 معاہدے کی روشنی میں چیکوسلوواکیہ سرحدی علاقوں سے دستبردار ہو گیا اور ان پر نازی حکومت کو کنٹرول حاصل ہو گیا۔ برسوں کی محنت سے تعمیر کیے گئے فوجی بنکرز جرمن کنڑول میں آسانی کے ساتھ چلے گئے۔ اس کے قریبی علاقوں پر نازی جرمن حکومت نے پندرہ مارچ سن 1939 میں قبضہ کیا۔

سن دو ہزار کے بعد

چیک جمہوریہ کے سرحدی دیہی علاقوں میں تعمیر کیے گئے فوجی بنکرز سرحدی تاریخ کے خاموش گواہ خیال کیے جاتے ہیں۔ سن دو ہزار میں کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی قانونی تقسیم ہو گئی اور یہ ملک ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں چیک جمہوریہ اور سلوواکیہ کی صورت میں نقشے پر ظاہر ہو گیا۔

ایک فوجی بنکر کی مرمت کرنے والے افراد کا گروپ فوٹوتصویر: Freiwilligengemeinschaft der Freunde der tschechoslowakischen Befestigungen

چیک جمہوریہ بتدریج ان فوجی مورچوں سے نجات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملکی فوج ان کو مقامی علاقوں کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی نجکاری بھی کرنے کی مجاز ہے۔ اس سرحدی علاقے میں قدرے چھوٹے جنگی مورچوں کی تعداد چار ہزار نو سو ترانوے ہے۔

فوجی اہمیت کے بغیر بنکرز

چیک جمہوریہ کی وزارتِ دفاع کے پریس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے پیٹر سیکورا کا کہنا ہے کی ان مورچوں یا عسکری مقامات کی کوئی فوجی اہمیت نہیں رہی ہے اور ایک تہائی کا کنٹرول تبدیل ہو چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سالانہ بنیاد پر ان کی ملکیت میں تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔

زیادہ تر لادین چیک جمہوریہ، مقدس مریم کا مجسمہ وجہٴ تنازعہ

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چیک فوج ان مورچوں یا بنکرز کو مختلف علاقوں اور مقامی انتظامیہ کو مفت دینے پر بھی تیار ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فوج صرف چند بنکرز کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے اور وہ بھی جن کی عمارتیں خاصی بڑی ہیں۔ ان میں فوج زلزلوں کی مانیٹرنگ یا جوہری دھماکوں کی زیر زمین سرگرمیوں کے جائزے کے لیے اپنے اسٹیشن قائم کرنا چاہتی ہے۔

یہ چھوٹا فوجی بنکر صرف ایک ہزار یورو میں خریدا جا سکتا ہےتصویر: Ministerium für Nationale Verteidigung der Tschechischen Republik

بنکرز کی فروخت اور سیاحوں کی دلچسپی

ان بنکرز کی فروخت کی تمام تفصیلات چیک آرمی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ ان کی قیمت ایک ہزار سے لے کے کئی ہزار تک ہیں۔ ان کی نیلامی کی وجہ سے خریداروں کی تعداد اور دلچسپی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

ان بنکرز میں بعض کی فروخت کے بعد ہیت تبدیل ہو چکی ہے اور ان میں سیاحتی مقصد کے لیے ریسٹورانٹ بھی کھولے جا چکے ہیں۔ سیاحوں نے اب تک سب سے زیادہ ہُرکا توپ خانے کے بنکرز کو پسند کیا ہے۔ یہ بنکر کرالیکی کی شمالی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔

رواں برس ان بنکرز کو دیکھنے بیس ہزار سیاح جولائی اور اگست میں گئے تھے۔ یہ علاقہ پولینڈ کی سُوڈیٹیس پہاڑیوں کے قریب ہے۔

لوبوش پالاٹا (ع ح/ع س)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں