چیک جمہوریہ کی حکومت نے یوکرائن سے تعلق رکھنے والے مزدوروں اور باہنر افراد کو تیز رفتاری کے ساتھ ورک پرمٹ جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حکومت اب یوکرائنی ورکرز کے لیے ورک پرمٹس کی تعداد دوگنی کر دے گی۔
اشتہار
چیک جمہوریہ میں باہنر افراد کی کمی اور تنخواہوں میں اضافے کی وجہ سے ورک فورس کی ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب چیک جمہوریہ سالانہ بنیادوں پر 19 ہزار چھ سو یوکرائنی شہریوں کو ’تیز رفتاری‘ سے ورک پرمٹ جاری کرے گا۔ اس فیصلے کے تحت مزدورں کو چیک جمہوریہ میں ملازمین کی منڈی میں آسان رسائی حاصل ہو گی۔ گزشتہ برس چیک جمہوریہ میں کام کے لیے نو ہزار چھ سو افراد کو کام کے اجازت نامے جاری کئے گئے تھے، جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد فقط تین ہزار آٹھ سو تھی۔
یہ بات اہم ہےکہ تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دینے کے اعتبار سے چیک جمہوریہ کا موقف مغربی یورپی ممالک کے مقابلے میں مختلف ہے۔ پراگ حکومت مسلم ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے ہاں قیام کی اجازت دینے کو مسترد کرتی ہے۔
چیک جمہوریہ یورپی یونین میں بے روزگاری کے اعتبار سے سب سے بہترین پوزیشن پر ہے، جہاں بے روزگار افراد کی تعداد فقط دو اعشاریہ تین فیصد ہے۔ یورپی شماریاتی ادارے یورو اسٹاٹ کے مطابق چیک جمہوریہ میں مختلف کاروباری اداروں کو مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے، جو ان کاروباری اداروں کی کارکردگی اور بہتر استطاعت کی راہ میں حائل ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
چیک جمہوریہ کے وزیرخارجہ مارٹن سٹروپنیکی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے،’’ہم آجروں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس لیے ہم مزدو ورک فورسز تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایسے ہی ورک پرمٹ منگولیا اور فلپائن کے شہریوں کو بھی دیے جائیں گے، تاکہ ملک میں مزدوروں کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔
یہ بات اہم ہے کہ چیک جمہوریہ کو یورپی یونین کی جانب سے قانونی کارروائی کا سامنا ہے، کیوں کہ وہ یورپی کمیشن کے اس کوٹہ سسٹم منصوبے کو رد کرتا ہے، جس کے تحت اٹلی اور یونان میں موجود تارکین وطن کو مختلف یورپی ممالک میں بسایا جانا ہے۔ چیک جمہوریہ کی حکومت اس کوٹے کے تحت مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دینے سے انکاری ہے۔