پراگ میں کار چرانے والے کو اصل جھٹکا تو پانچ کلومیٹر بعد لگا
7 نومبر 2019
یورپی یونین کے رکن ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں ایک چور نے ایک گاڑی چرائی، جس کے بعد اصلی جھٹکا تو اسے تقریباﹰ پانچ کلومیٹر دور جا کر اس وقت لگا جب اسے احساس ہوا کہ گاڑی میں چھ ماہ کی ایک شیر خوار بچی بھی تھی۔
اشتہار
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی پراگ سے جمعرات سات نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مقامی پولیس کے لیے کسی گاڑی کی اس طرح چوری کا یہ ایک منفرد واقعہ ہے اور وہ ممکنہ گواہوں کی تلاش میں ہے۔
ہوا یہ کہ پراگ کی رہنے والی ایک 41 سالہ خاتون اپنی چھ ماہ کی بیٹی کے ساتھ گھر سے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر اس لیے نکلی کہ ایک مقامی پرائمری اسکول سے اپنے دوسرے بچے کو واپس گھر لا سکے۔ اس خاتون کو گاڑی پارک کرنے کی جگہ اسکول سے دو تین منٹ پیدل کے فاصلے پر ملی اور وہ گاڑی کے دروازے بند کر کے لیکن اس کا انجن چلتا ہوا چھوڑ کر اپنے بڑے بچے کو لینے چلی گئی۔ اس وقت چھ ماہ کی شیرخوار بچی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اپنے 'روکر‘ یا پالنے میں سو رہی تھی۔
اس دوران ایک چور نے موقع غنیمت جانا اور چلتے ہوئے انجن والی گاڑی وہاں سے لے اڑا۔ اسے پکڑے جانے کے خوف سے تیز ڈرائیونگ کے دوران لگنے والے معمول کے جھٹکوں کے علاوہ ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا، جب چھ ماہ کی بچی کے جاگ جانے اور رونے پر اسے احساس ہوا کہ گاڑی میں تو کوئی اور بھی موجود تھا۔
اس نامعلوم چور نے اسی وقت ایک قریبی پارکنگ میں جا کر بچی کو اس کے پالنے سمیت گاڑی سے نکال کر فٹ پاتھ پر رکھا اور فرار ہو گیا۔ تب تک وہ جائے وقوعہ سے تقریباﹰ پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ اس ننھی سی بچی کو بعد میں وہاں سے گزرنے والی ایک خاتون نے دیکھا تو اس نے پولیس کو اطلاع کر دی، جس نے آ کر بچی کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔
بعد ازاں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ بچی پہلے کی طرح اچھی حالت میں ہے اور واپس ماں کے حوالے کی جا چکی ہے۔ چور ابھی تک مفرور ہے مگر پولیس کو شہر کے ایک دوسرے حصے سے چوری شدہ گاڑی مل گئی ہے، جسے ایک دو بار شاید کسی درخت یا دوسری گاڑی سے ٹکرا جانے کی وجہ سے کافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
چوری کی جگہ کے قریب نصب کردہ ایک سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج کے مطابق چور نے سیاہ رنگ کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی مگر ویڈیو میں اس کا چہرہ اس کی کمر کیمرے کی طرف ہونے کی وجہ سے پہچانا نہیں جا سکتا۔
پولیس نے بتایا کہ چور کو پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، اگر وہ پکڑا گیا تو!
م م / ش ح (ڈی پی اے)
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن کیسا ہوتا ہے
بعض بچے انتہائی خوش تو کچھ خوفزدہ، مگر کوئی بھی بچہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ جرمنی میں اسکول کا پہلا دن مختلف رسومات سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو صدیوں پُرانی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
تحائف سے بھری کون
جرمنی میں کسی بھی بچے کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات، ’شُول ٹیوٹے‘ یا اسکول کون ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی علامت ہوتی ہے کہ اسکول میں بچے کے اگلے 12 یا 13 برسوں کا ہر ایک دن میٹھا رہے گا اور اس کے لیے تحائف لائے گا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انیسویں صدی کے آغاز سے چلی آ رہی ہے۔ مخروطی شکل کی گتے کی بنی اس بڑی سی کون میں تحفے، اسکول میں استعمال کی جانے والی چیزیں اور مٹھائیاں ہوتی ہیں۔
تصویر: imago/Kickner
ایک نئے مرحلے کا آغاز
اسکول کے پہلے سال کے پڑھائی کا آغاز اگست یا ستمبر میں ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچی کی عمر چھ سال ہونی چاہیے۔ ان کی اکثریت پہلے ہی ڈے کیئر سنٹر یا کنڈرگارٹن میں کچھ برس بِتا چکے ہوتے ہیں جو پبلک اسکول کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے بچوں اور والدین کے لیے بھی پہلا سال ایک نیا مرحلہ ہوتا ہے اور بہت مختلف بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.Khan
ضرورت کے عین مطابق بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل ہی والدین اپنے بچے کے لیے بیگ پیک یا کمر پر لادا جانے والا بستہ خریدتے ہیں جسے ’شول رانزن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چوکور شکل کا ہوتا ہے تاکہ اس میں نہ تو کاغذ یا کتابیں مڑیں اور نہ ہی کھانے کی چیزیں پھیلیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے ڈیزائن اور خوبصورت ترین بیگ پیک خریدیں۔ رواں برس ’اسٹار وار‘ کے ڈیزائن والے بیگ زیادہ مقبول ہیں جبکہ سپر مین ہمیشہ سے مقبول رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
چوکور شکل کے بستے کی خریداری کے بعد اسکول کے پہلے روز سے قبل ہی اس میں ڈالنے کے لیے چیزوں مثلاﹰ پینسلیں، پین، فٹے اور فولڈرز وغیرہ کی خریداری کا مرحلہ آتا ہے۔ جرمنی میں نو عمر طلبہ عام طور پر اسکول میں لنچ نہیں کرتے۔ اس کی بجائے بریک کے دوران کھانے کے لیے گھر پر تیار کردہ ہلکے پھلکے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے لیے مناسب بوُکس یا ڈبے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
زندگی بھر یاد رہنے والا دن
دنیا بھر میں ہی تقریباﹰ ہر بچے کی اسکول کے پہلے دن تصویر ضرور اُتاری جاتی ہے۔ جرمنی میں بچے اس موقع پر اپنے ’شُول ٹیوٹے‘ کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے اپنے قد سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ مگر بچوں کے لیے عام طور پر یہ مصروفیت ان کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعاؤں کے ساتھ آغاز
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن دراصل اسکول سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ ایک خصوصی تقریب سے اس کا آغاز ہوتا ہے جس میں بچوں کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی مدعو ہوتے ہیں۔ چرچ میں دعائیہ تقریب بھی عام طور پر اس روایت کا حصہ ہوتی ہے تاکہ نیا تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر بچوں کو دعاؤں سے نوازا جائے۔ بعض اسکول مسلمان بچوں کے لیے بین المذاہب تقریب کا اہمتام بھی کرتے ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے چرچ جانا ضروری نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کار لوگوں کی طرف سے رہنمائی
تقریب کے دوران اسکول کی بڑی کلاسوں کے طلبہ یا اساتذہ کی طرف سے نئے آنے والے بچوں کو پرفارمنس کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسکول کی مصروفیات کیا ہوں گی یا اسکول میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ بعض اسکولوں میں ہر نئے آنے والے بچے کو تیسری یا چوتھی کلاس کا ایک بچہ اپنے ساتھ لے جا کر کلاس رُوم وغیرہ دکھاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسکول کی عمارت کا تعارفی دورہ
پہلے روز کی مصروفیات میں بچوں کو اسکول کی عمارت کا ایک تعارفی دورہ بھی شامل ہوتا ہے اور پہلی کلاس میں آنے والے بچوں کو ان کی کلاسیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں نئے آنے والے بچوں کے لیے کلاس میں خوش آمدید لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
فیملی گیٹ ٹو گیدر
اسکول میں ہونے والی تقریب کے بعد خاندان اپنے طور پر اس اہم دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں دادا، دادی، نانا، نانی، خاندان کے دیگر افراد اور دوستوں وغیرہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خصوصی کھانے اور کیک وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔ مہمان اور خاندان کے افراد کی طرف سے بچے کو تحائف بھی ملتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/R. Goldmann
اسکول کا دوسرا دن
اسکول کی تقریب، کیک اور خصوصی کھانوں وغیرہ اور ’شُول ٹیوٹے‘ کھولے جانے کے ساتھ ہی عموماﹰپہلا دن تمام ہوتا ہے۔ اسکول کے دوسرے دن پہلی کلاس میں آنے والے یہ بچے اپنا پہلا سبق شروع کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی تک ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی بناء پر تین مختلف طرح کے اسکولوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں۔