پیر پانچ جون کے روز ڈائنوسار کا ایک انتہائی نایاب ڈھانچہ دو ملین یورو یا دو اعشاریہ تین ملین ڈالر کی رقم کے بدلے فروخت کر دیا گیا۔ یہ ڈھانچہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں آئفل ٹاور پر فروخت کیا گیا۔
اشتہار
اس ڈائنوسار کی ہڈیاں امریکی ریاست وائیومنگ سے سن 2013ء میں کھدائی کے دوران ملی تھیں اور سائنس دانوں کے مطابق اس ڈائنوسار کا تعلق گوشت خور ڈائنوسارز سے ضرور ہے، تاہم اسپیشیز کے اعتبار سے یہ ’شاید ایک الگ نوع‘ کا جانور تھا۔
جرمنی میں جنگلی گھوڑوں کو جمع کرنے کی قدیم روایت
جرمنی کا شمال مشرقی علاقہ گھوڑوں سے متعلق اپنی ایک قدیم روایت کے حوالے سے خاصہ مشہور ہے۔ یہاں ہر سال ہزاروں افراد، نایاب جنگلی گھوڑوں کا میلہ دیکھنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Kuegeler
یورپ کے آخری جنگلی گھوڑوں کی نسل
جرمنی کے Teutoburg جنگل ميں واقع ایک چھوٹا سا Dülmen نامی شہر گھوڑوں سے متعلق پرانی روایت کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں Dülmen pony نامی یورپ کے جنگلی گھوڑوں کی آخری باقی رہ جانے والی نسل موجود ہے۔ 360 ہیکڑ پر پھیلے ہوئے اس علاقے میں یہ گھوڑے عموماﹰ پورا سال ہی نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/firo/J. Fromme
سو سالہ روایت
یہاں ہر سال ہونے والا یہ میلہ تقریباﹰ 15 ہزار سے زائد افراد کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس میلے کی ابتداء سن 1907ء میں ہوئی تھی جس میں ان گھوڑوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا تھا تاکہ ان کی تعداد کا اندازہ لگانے کے علاوہ انہیں فروخت بھی کیا جا سکے۔ یہاں موجود گھوڑوں کو آسانی سے پالتو بنایا جا سکتا ہے۔ 360 ہیکڑ پر پھیلے ہوئے اس علاقے میں یہ گھوڑے عموماﹰ پورا سال ہی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Kuegeler
کمیونٹی کا اجتماع
اس میلے کے موقع پر مقامی کسان اور کاشت کار خصوصی طور پر میلے میں حصہ لینے کے لیے ایک دن کام سے رخصت لیتے ہیں۔ ان کی پہلی ذمہ داری نر اور مادہ گھوڑوں کو علیحدہ کرنا ہے۔ ان میں سب سے کم عمر گھوڑوں کو پھر اس میلے کے اگلے مرحلے میں پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں ان گھوڑوں کو ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے اور ان کے پیچھے دوڑ لگائی جاتی ہے۔ جو گھوڑا ہاتھ آتا ہے اسے بعد میں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Kurek
کاؤ بوائے اور گھوڑے
ان جنگلی گھوڑوں کو ہاتھوں سے پکڑا جاتا ہے جس کے لیے ایک قدیم طریقہ کار استعمال کيا جاتا ہے۔ ماضی میں گھوڑوں کو گردن سے پکڑ کر گرایا جاتا تھا۔ تاہم اس طریقہ کار کو جانوروں کے حقوق کے حامیوں کی جانب سے خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Kuegeler
تفریح کا موقع
اب یہ سالانہ میلہ صرف گھوڑوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر جانور بھی شامل ہيں۔ اس برس ایک شخص نے اپنے کتوں کو دی گئی خصوصی ٹریننگ کے ذریعے لوگوں کو محضوظ کیا۔ پھر گرمیوں کے موسم میں ہونے والے اس میلے ميں شريک افراد بیئر اور آلو کے چپس يا فرائیز کے ساتھ بھی لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایک پکنک کا سماں نظر آتا ہے۔
ڈیڑھ سو ملین سال پرانے اس ڈھانچے میں سے 70 فیصد درست حالت میں ہے، جسے فنی نمونے جمع کرنے والے ایک فرانسیسی شہری نے خریدا۔ اس خریدار کا نام نہیں بتایا گیا۔ اس خریدار کی جانب سے تاہم ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈھانچہ ایک میوزیم میں رکھا جائے گا، تاکہ عوام اسے دیکھ سکیں۔
اس ڈھانچے کو نیلام کرنے والے کلود اگوٹیے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’خریدار نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس ڈھانچے کو کسی فرانسیسی میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا جائے۔‘‘
تیس فٹ یا نو میٹر سے زائد طویل یہ ڈائنوسار ڈھانچہ دو اعشاریہ چھ میٹر بلند ہے اور یہ جانور جوراسک دور کے آخری حصے میں زندہ تھا۔ آگوٹیے نیلام گھر سے وابستہ ایرک میکلر کے مطابق، ’’اپنی اسپیشیز سے تعلق رکھنے والا یہ وہ واحد ڈائنوسار ہے، جس کی آج تک کوئی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔‘‘
اس سے قبل ڈائنوسار جانوروں کے علوم کے ماہر ایرک گینیسٹے نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا تھا، ’’اس ڈھانچے کے ذریعے یہ تخصیص ناممکن ہے کہ اس کا تعلق ایلوساؤرس ڈائنوسار گروہ سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کندھوں کی ہڈیاں زیادہ لمبی ہیں اور اس کے دانتوں کی تعداد دیگر ڈائنوسارز کے مقابلے میں مختلف ہے۔‘‘
ایتھوپیا کے لوٹے گئے قدیم نوادرات
برطانوی افواج کی جانب سے 1868ء میں ایتھوپیا سے لوٹا گیا خزانہ اب تک توجہ سے محروم تھا۔ لیکن اب برطانوی ادارے یہ فیصلہ کرنے میں مشغول ہیں کہ ان قیمتی نوادارات کو کس طرح استعمال کیا جائے۔
تصویر: James Jeffrey
نیا موضوع بحث
لندن کے مشہور ویکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم میں ایتھوپیا سے لوٹے گئے قدیم نوادرات کی نمائش نے ایک بار پھر اس بحث کو چھیڑ دیا ہےکہ ان کو آخر کس ملک میں رہنا چاہئے۔ اس نمائش میں 1868ء میں جنگ مجدلہ میں فتح کے بعد لوٹی گئی 20 شاہی اور مذہبی نوعیت کی نوادرات رکھی گئی ہیں۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
سپاہی اور اسکینڈل
جنگ میں فتح کے بعد برطانوی فوج کو آزادی تھی کہ وہ جو چاہیں لوٹ سکتے ہیں۔ ان کا یہ عمل نہ صرف اُس وقت تنازعے کا باعث بنا بلکہ برطانیہ کے لیے باعث شرمندگی بھی تھا۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
ماضی کے آئینے میں
گزشتہ کئی برسوں سے یورپ اور امریکا کے درمیان ان نوادرات کی واپسی کے معاملے پر بے نتیجہ مباحثے چلے آرہے ہیں۔
تصویر: Victoria and Albert Museum, London
لُوٹا گیا بہترین مال
برطانوی سپاہیوں کی جانب سے کتنا خزانہ لوٹا گیا تھا اس بات کا آج تک حتمی تعین نہیں کیا جا سکا ہے تاہم ایک تاریخ دان کے مطابق سپاہیوں کو جو بھی اس وقت بہترین شے نظر آئی، وہ انہوں نے اپنے قبضے میں لے لی۔ ان میں ہاتھ سے لکھی ایسی نایاب اور اعلیٰ کتب بھی ہیں جو کئی ایتھوپین باشندوں نے کبھی دیکھی نہیں۔
تصویر: James Jeffrey
عالمگیر رکھوالے
گو کہ ان نوادرات کو ایتھوپیا واپس لوٹانے کے لیے کئی مضبوط دلائل موجود ہیں، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپی میوزیم نوادرات کی حفاظت کو نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔
تصویر: James Jeffrey
ڈیجیٹل کاپیوں کا کردار
ان نوادرات کی واپسی کی حمایت کرنے والے افراد کہتے ہیں اگر لائبریریاں ان ہاتھ سے لکھی گئی کُتب کو ڈیجیٹل صورت میں لے آئیں، تو دنیا بھر میں ان سے استفادہ حاصل کیا جا سکے گا چاہے وہ اپنے اصل ملک کو کیوں نہ لوٹائی جا چکی ہوں۔
تصویر: James Jeffrey
6 تصاویر1 | 6
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس کے اور ایلوساؤرس (ڈائنوسارز کی ایک قسم) کے درمیان موجود فرق انسان اور گوریلا کے درمیان پائے جانے والے فرق سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
اس نیلامی میں سویڈش اور جاپانی بولی کنندگان نے بھی شرکت کی اور وہ اس کی قیمت کو دو ملین یورو تک لے گئے۔ واضح رہے کہ فرانسیسی نیلام گھر نے یہ ڈھانچہ سن 2016 میں گیارہ لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔