ڈارون تھیوری ترک نصاب سے خارج، ’ جہاد اور مقدس جنگ‘ شامل
صائمہ حیدر
18 ستمبر 2017
ترکی میں اسکولوں کے بائیو لوجی کے نصاب سے انسانی ارتقا کی ڈارون تھیوری کو خارج کیا جا رہا ہے جبکہ ’ وطن سے محبت ‘ کے باب میں مذہبی کلاسوں میں ’جہاد‘ اور ’مقدس جنگ‘ جیسے موضوعات پڑھائے جائیں گے۔
اشتہار
ترکی نے اسکولوں کے نصاب میں شامل 170 مضامین کا ازسر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس جائزے میں ہائی اسکولوں میں بایئولوجی کے مضمون میں انسانی ارتقا کے نظریے سے متعلق تمام براہ راست حوالے خارج کیے جا رہے ہیں۔ ستمبر سن 2018 سے ترک نصاب میں لائی جانے والی ان تبدیلیوں پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح نصاب کو مذہبی تعلیمات کے تناظر میں ایردوآن حکومت کے قدامت پسندانہ رویے کے تحت تراش خراش کی جا رہی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور اتحادوں نے ان تبدیلیوں کے خلاف ترک حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرے کیے ہیں کہ طلبا کو سائنسی اور سیکولر تعلیم دی جائے۔ ترک قانون سازوں نے بھی پارلیمان میں ان نئی لائی جانے والی تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔
اس حوالے سے ترک وزیر تعلیم عصمت یلمز کا کہنا ہے کہ ارتقائی بایئولوجی کا مضمون اُن کی وزارت کی رائے میں ہائی اسکول کے طلبا کے لیے زیادہ مشکل ہے اور اسے یونیورسٹی کی سطح پر پڑھایا جائے گا۔
ترکی میں ایوولوشن یا ارتقا کا مضمون بعنوان ’ زندگی کے آغاز اور ارتقا ‘ بارہویں جماعت سے پڑھایا جاتا رہا ہے۔ اب اس باب کو’ جاندار اور ماحول‘ کے باب سے بدل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دینی مضامین میں جہاد اور مقدس جنگ کے مضامین کو ’وطن کی محبت‘ کے باب میں شامل کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک سے متعلق مواد کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ ترکی میں سیکولر خیالات کے حامل افراد اتاترک کو انتہائی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اتاترک نے ریاست کو مذہب سے الگ رکھا تھا تاہم صدر ایردوان کی جماعت نے اس تقسیم کو زیادہ مذہبی نقطہ نظر کے ساتھ چیلنج کر رکھا ہے۔
اسکولوں میں طلبا کو ترک مخالف گروپوں کے بارے میں بھی تعلیم دی جائے گی۔ ان گروپوں میں کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے، جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ اور امریکا میں مقیم مذہبی عالم فتح اللہ گولن کا نیٹ ورک شامل ہے۔
دو براعظموں میں واقع شہر استنبول کی سیر کیجیے
تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اسے ملک کا ثقافتی و اقتصادی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ آبنائے باسفورس کے کنارے واقع یہ شہر دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
ایا صوفیہ ( حاجیہ صوفیہ) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے، جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سلطان احمد مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے، جس کے چھ مینار ہیں۔ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول کا تاریخی باسفورس پُل، جسے پندرہ جولائی کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے دوران مزاحمت کرنے والے شہریوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’’شہدائے پندرہ جولائی پُل‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بیلربے کو ملاتا ہے اور آبنائے باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا تخت ہونے کی وجہ سے اس شہر میں عثمانی دور کے بادشاہوں اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے جگہ جگہ مساجد قائم کیں۔ زیر نظر تصاویر استبول کی معروف نیلی مسجد کے اندرونی حصے کے ہے، جو ترک ہنر مندوں کی محنت اور بادشاہوں کے ذوق کا عکاس ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام سرکاری سرپرستی میں چل رہا ہے۔ اس نظام کے تحت میٹرو بسیں، میٹرو ٹرینیں، کشتیاں اور زیر زمیں ریل کاریں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج بھی ترکی میں جابجا اس دور کی تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف تہواروں پر سلطنت عثمانیہ کے دور کی موسیقی اور دھنیں بجاتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
استبول کے مضافات میں نو چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں، جنہیں پرنسسز آئی لینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ جزائر سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ انہیں میں سے ایک جزیرے ہیبلی ادا کا ایک ساحلی منظر
تصویر: DW/S. Raheem
استنبول کے ایک بازار میں روایتی آئیس کریم فروش۔ یہ آئیس کریم فروش اپنے حلیے اور پھر اس سے بھی زیادہ ان کرتبوں کے لئے مشہور ہیں، جو وہ گاہکوں کو آئیس کریم پیش کرنے سے قبل دکھاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترک کھانے بھی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی پلیٹ میں ترکی کے مشہور اسکندر کباب نظر آ رہے ہیں۔ گائے کے گوشت سے بنے یہ کباب انتہائی لذیز ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک مخصوص روٹی کو شوربے کی تہ میں بھگو کر دہی کے ہمراہ کھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترکی کے روایتی میٹھے بھی لاجواب ہیں۔ مشہور زمانہ بکلاوے کے علاوہ فرنی، تری لیشا اور مختلف پھلوں سے تیار کیے گئے میٹھوں کا جواب نہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
ترک عوام چائے کے بھی بہت ہی شوقین ہیں۔ اسی لئے باہر سے آنے والے سیاحوں کو استنبول کے مختلف بازاروں میں انواع و اقسام کی چائے کی پتیاں باآسانی مل جاتی ہیں۔