بھارت کے نائب وزیر تعلیم ستیہ پال سنگھ کا دعویٰ ہے کہ چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنسی لحاظ سے غلط ہے۔ بھارت کی سائنسی برادری نے اس متنازعہ بیان کو سائنس اور سائنس دانوں کی توہین قرار دیا ہے۔
اشتہار
بھارت میں انسانی وسائل کے فروغ اور تعلیم کے وفاقی نائب وزیرستیہ پال سنگھ تاہم اپنے بیان پر مصر ہیں۔ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو دنیا بھر میں چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ ڈارون ازم ایک مفروضہ ہے۔ اگر میں یہ بات کہہ رہا ہوں تو ایسی بات میں کسی بنیاد کے بغیر نہیں کہہ سکتا۔ میں سائنس کا آدمی ہوں۔ میں نے دہلی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ہے۔‘‘
دوسری جانب بھارت کی سائنسی برادری کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت کے وزیر ستیہ پال سنگھ کا بیان سائنس اور سائنس دانوں میں سیاسی صف بندی کی ایک کوشش ہے اور ایسا بیان سائنس اور سائنسدانوں کی توہین ہے۔
انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی کے سابق صدر اور بھارت کے موقر ترین سائنسی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور میں پروفیسر ڈاکٹر رگھوویندر گڈگکرنے نائب وزیر تعلیم کے بیان کو ’حقائق کی بنیاد پر مختلف لحاظ سے غیر معقول‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ اس بیان کا مقصد سائنس اور سائنس دانوں کی سیاسی صف بندی کرنا ہے ۔ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے، جس سے ہمیں بچنا ہوگا۔‘‘ لائف سائنس پر بھارت کے چوٹی کے تحقیقی اداروں میں سے ایک بایوکون لمیٹیڈ کی چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر کرن مجمد ارشا کہتی ہیں،’’اس طرح کا بیان افسوسناک ہے ۔ یہ خود اس عہدے کی توہین ہے۔ انہوں نے پوری دنیا کے سائنس دانوں اور سائنسی برادری کی توہین کی ہے۔ ایک بایولوجسٹ کی حیثیت سے مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح کی باتوں کا کیا جواب دوں۔‘‘
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کون ہیں؟
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ان کے مریدوں کی تعداد پچاس ملین ہے لیکن کئی حلقے انہیں ایک متنازعہ شخصیت قرار دیتے ہیں۔ آخر اس سادھو میں ایسا کیا ہے کہ انہیں بھارت کا ایک انتہائی اہم روحانی رہنما قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Str
’چمکیلا گرو‘
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو ’روک اسٹار بابا‘ اور ’چمکیلا گرو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں اور چمکتی ہوئی جیولری پہننا ان کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ بالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی جلوہ گر ہو چکے ہیں، جو انہوں نے اپنی ہی دولت سے بنائی ہیں۔ تاہم ان کا ذریعہ روزگار کیا ہے؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
’سماجی کارکن‘
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ خود کو ’سماجی کارکن’ اور ’انسان دوست‘ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنا ایک فرقہ بھی بنا رکھا ہے، جس میں بھارت کے مختلف مذاہب کے لوگ ان کے پیروکار ہیں۔ سن 2010 میں انہوں نے اجتماعی شادیوں کی ایک تقریب بھی منعقد کی تھی، جس میں ان کے ایک ہزار پیروکاروں نے سابق جسم فروش خواتین سے شادی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
مووی اسٹار اورریکارڈنگ آرٹسٹ
حالیہ عرصے میں گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کی متعدد فلموں نے دھوم مچائی، جن میں ’میسنجر فرام گاڈ‘ اور ’دی واریئر۔ لائن ہارٹ‘ بھی شامل ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے خود کو ایک انتہائی اعلیٰ مرتبے پر فائز ایک شخصیت کے طور پر دکھایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے کئی میوزک البم بھی ریلیز کیے۔ سن 2014 میں ان کا ایک گانا ’لو چارجر‘ ایک بڑا ہٹ ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal
سکھ کمیونٹی کے ساتھ تنازعہ
سن 2007 میں گرو گرمیت رام رحیم سنگھ ایک اشتہار میں گرو گوبند سنگھ کے روپ میں ظاہر ہوئے تو سکھ کمیونٹی میں غم وغصہ پھیل گیا۔ سکھوں کے انتہائی معتبر گرو گوبند سنگھ کی ’توہین‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے بھارت میں سکھ کمیونٹی نے مظاہرے بھی کیے اور آخر کار رام رحیم کے فرقے ڈیرا سچا سودا کی طرف معافی مانگی گئی تو یہ معاملا ٹھنڈا ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Pal Singh
مجرمانہ الزامات اور سزا
بھارت میں متعدد مذہبی گروپوں کے جذبات مجروح کرنے کے علاوہ گرو گرمیت رام رحیم سنگھ پر مجرمانہ الزامات بھی عائد کیے گئے۔ سن 2000 میں ایک صحافی کو قتل کرنے کی سازش کے ایک مقدمے میں وہ شامل تفتیش ہوئی اور سن 2015 میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے چار سو مریدوں کو نس بندی کرانے کی تقویت دی۔ تاہم سن 2002 میں ریپ کے ایک کیس میں مجرم قرار پانے میں چوبیس اگست کو انہیں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Prakash
مریدوں کا احتجاج
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو عدالت کی طرف سے مجرم قرار دیے جانے کے فوری بعد ہی ریاست ہریانہ اور پنجاب میں ان کے مریدوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس تشدد کے نتیجے میں کم ازکم اکتیس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس دوران متعدد سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں ان کے آبائی قصبے پنچکولا میں ہوئیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
توڑ پھوڑ
بالخصوص پنچکولا میں رام رحیم کے مریدوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ مشتعل مظاہرین نے متعدد گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ اس مظاہروں پر کنٹرول پانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Qadri
سکیورٹی ہائی الرٹ
ہریانہ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں تشدد کے واقعات کے پیش نظر حساس علاقوں میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق تاہم مشتعل مظاہرین شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
کچھ مقامات پر کرفیو بھی
مقامی انتظامیہ نے کئی علاقوں میں حفاظتی طور پر کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ چنڈی گڑھ اور ملحقہ علاقوں میں پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے پندرہ ہزار کے قریب اہلکار تعینات ہیں۔ ریاست ہریانہ کے شہر پنچکولا اور اس کے نواحی علاقوں کو خاردار باڑ لگا کر سیل کر دیا ہے ۔ اس علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اپنے گورو کے حق میں سڑکوں پر ڑیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
پنچکولا میدان جنگ بن گیا
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کا آبائی شہر پنچکولا میں میدان جنگ کی سی صورتحال ہے۔ حکام نے اس شہر میں تشدد کو کنٹرول کرنے کی خاطر خصوصی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma
10 تصاویر1 | 10
مودی کابینہ کے وزیر ستیہ پال سنگھ نے گزشتہ روز مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ’انسانوں کی ترقی کے حوالے سے چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنسی لحاظ سے غلط ہے ۔ اسے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب سے نکال دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کامزید کہنا تھا، ’’ہمارے آباؤ اجداد میں سے کسی نے بھی تحریری یا زبانی طورپر بندر کے انسان میں تبدیل ہونے کا ذکر کبھی نہیں کیا ہے۔نہ ہی کسی نے بندر کو انسان میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انسان جب سے زمین پر دیکھا گیا ہے، انسان ہی رہا ہے۔‘‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب ستیہ پال سنگھ نے اس طرح کا متنازعہ بیان دیا ہے۔ گزشتہ دسمبر میں بھی ایک تعلیمی پروگرام کے دوران انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکیاں اگر جینز پہنیں گی تو ان سے کون شادی کرے گا۔ ان کے اس بیان پر خاصا ہنگامہ ہوا تھا۔ستیہ پال ممبئی کے پولیس کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ سن 2014 میں عام انتخابات کے دوران انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور کسانوں کے معروف رہنما اجیت سنگھ کو ہرادیا تھا۔ وزارت کا عہدہ ان کی اسی کارکردگی کا انعام بتایا جاتا ہے۔ ستیہ پال سنگھ انڈین پولیس سروس میں رہتے ہوئے اس عہدہ سے استعفیٰ دینے والے پہلے افسر ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے بعد بھارت میں جہاں ایک طرف ہندو مذہب کو غالب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے وہیں بی جے پی کے رہنماؤں کے مضحکہ خیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پچھلے دنوں بی جے پی کی حکومت والی راجستھان کے وزیر تعلیم واسودیو دیونانی نے راجستھان یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کشش ثقل کا نظریہ نیوٹن نے نہیں بلکہ ان سے کوئی ایک ہزار برس قبل ایک ہندو راجہ برہم گپت دوئم نے پیش کیا تھا۔ ایک دیگر وزیر نے دعویٰ کیا تھا کہ گائے دنیا کی واحد جانور ہے جو سانس کے ذریعہ آکسیجن خارج کرتی ہے۔ خود وزیر اعظم نریند ر مودی کہہ چکے ہیں کہ ہندوؤں کے دیوتا گنیش (جن کا چہرہ ہاتھی کا اور جسم انسانوں کا ہے) قدیم بھارت میں پلاسٹک سرجری کی کامیابی کی مثال ہے۔
نائب وزیر تعلیم ستیہ پال سنگھ کے بیان کا سوشل میڈیا پر بھی خوب مذاق بنایا جا رہا ہے۔سینئر صحافی اور ’دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے ٹوئٹ کیا، ’’ستیہ پال سنگھ سے پہلے گیانی ذیل سنگھ (سابق صدر) نے ڈارون کی بری طرح بے عزتی کی تھی۔ ذیل سنگھ نے پنجاب یونیورسٹی میں اینتھروپولوجی کی ایک بڑی کانفرنس میں کہا تھا ’اگر انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے تو طوطا کہاں سے آیا؟‘ فرق صرف یہ ہے کہ وزیر موصوف آئی پی ایس (انڈین پولیس سروس کے اعلیٰ افسر) ہیں اور گیانی جی کی رسمی تعلیم بھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘ پریتی شرما مینن نے لکھا، ’’ستیہ پال سنگھ نے بالکل درست کہا ہے کہ ڈارون کا نظریہ ارتقاء غلط ہے۔ سچ ہے کہ کچھ مخلوقات کا ارتقاء ابھی تک ہوا ہی نہیں ہے۔‘‘
دریں اثنا تقریباً چارسو افراد نے ستیہ پال سنگھ کو ایک خط بھیج کر ان سے اپنا بیان واپس لینے کا مطالبہ کیاہے۔ خط میں لکھا گیا ہے، ’’ہم سائنس دانوں، سائنس کی تعلیم دینے والوں اور سائنسی رجحان رکھنے والوں کو آپ کے دعوے سے شدید تکلیف پہنچی ہے۔ اگر انسانی وسائل کے فروغ کے لیے کام کرنے والا وزیر ایسا دعویٰ کرتا ہے تو اس سے سائنسی نظریات اور جدید سائنسی تحقیق کو فروغ دینے کی سائنسی برادر ی کو کوششوں کو نقصان پہنچے گا ۔اس سے عالمی سطح پر بھارت کا امیج بھی خراب ہوتا ہے اور بھارتی محققین کی حقیقی تحقیق پر بین الاقوامی برادری کا اعتماد بھی کمزور ہوتا ہے۔‘‘
آتشبازی پر پابندی، دہلی والے تاریک دیوالی منائیں گے
آج دنیا بھر میں ہندو مذہب میں دیوالی یعنی روشنیوں کا تہوار منایا جا رہا ہے۔ روایتی طور پر اس روز آتش بازی کی جاتی ہے تاہم اس برس آلودگی کی روک تھام کے لیے دہلی میں آتش بازی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Dave
آتش بازی پر پابندی
آتشبازی پر یکم نومبر تک یہ عارضی پابندی گزشتہ ہفتے بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے لگائی گئی ہے۔ یہ پابندی دیوالی سے صرف چند ہی روز پہلے عائد کی گئی ہے۔ پابندی کا مقصد دہلی کی فضا میں بڑھتی آلودگی میں کمی لانا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Joyce
کاروبار ٹھپ
دہلی کے صدر بازار میں پٹاخوں اور آتشبازی کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھاری مالیت کے پٹاخے خرید رکھے ہیں۔ نہیں معلوم کہ اب یہ یہ سامان کیسے فروخت کیا جا سکے گا۔
تصویر: Reuters
گرین دیوالی
بھارت کے باقی شہروں اور دیہاتوں میں یہ مستی کرنے اور پٹاخے چھوڑنے کا وقت ہے لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے افراد اس بار ’گرین دیوالی‘ منانے کی اپیل کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کم پٹاخے۔
تصویر: Julia Smielecki
کولکاتا میں دیوالی
دیوالی کے موقع پر نہ صرف چراغاں ہوتا ہے اور دیے جلائے جاتے ہیں بلکہ ہندو مت کے پیروکار اپنے مذہب کے حوالے سے لکشمی اور کالی دیوی کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ اس تصویر میں کولکاتا میں کالی دیوی کے مجسمے کو سجایا سنوارا جا رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Photoshot
مندر میں دیے
گھروں کو لائٹوں اور شمعوں سے سجانے کے علاوہ ہندو افراد دیوالی کی شام مندروں میں بھی چراغ جلاتے ہیں۔ اس موقع پر گھر کی خوشحالی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
دہلی کی ہوا اور دھویں کے بادل
دہلی میں ہر سال دیوالی کی تقریبات دارالحکومت کی فضا میں کثیف دھویں کے بادل چھوڑ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خاص طرح کے مادے کے چھوٹے چھوٹے ذرات کی شرح بھی ہوا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے جو پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M.Swarup
اندھیرے پر روشنی کی فتح
بھارت میں دیوالی کی آمد سے پہلے ہی گھروں میں اس کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر گھروں کی خصوصی تزئین کی جاتی ہے اور گھر کے اندرونی حصوں کو طرح طرح کے خوشنما ڈیزائنوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اس تہوار کو معنوی لحاظ سے اندھیرے پر روشنی اور برائی پر اچھائی کی فتح کے طور پر منایا جاتا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Sam Panthaky
دیوالی تو بچوں کی ہے
دیوالی کے موقع پر بڑوں کی مصروفیات اپنی جگہ لیکن اصل خوشی اور مزے تو بچوں کے ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف مزے دار مٹھائیاں اور پکوان کھانے کو ملتے ہیں بلکہ آتشبازی کی پھلجڑیاں اور پٹاخے چلانے کی کھلی چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kanojia
خصوصی آرائش
دیوالی یا دیپاولی ایک قدیم ہندو تہوار ہے۔ اس تہوار کی شام کو گھر کی خواتین، رشتے دار خواتین اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر دیے جلاتی ہیں اور انہیں خوبصورتی سے ترتیب دیتی ہیں۔