دہشت گردی کے منصوبے بنانے سے لے کر عام لوگوں کا نجی ڈیٹا فروخت کرنے جیسے جرائم مختلف ممالک میں انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ حکومتوں اور عام صارفین کی پہنچ سے دور انٹرنیٹ کی یہ تاریک دنیا ’ڈارک نیٹ‘ کہلاتی ہے۔
اشتہار
ڈارک نیٹ تک رسائی صرف عام صارفین کے لیے ہی مشکل نہیں بلکہ حکومتوں اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے لیے بھی اس تک رسائی اور اس کا کھوج لگانا ایک مشکل کام ہے۔ ڈارک نیٹ پر کی جانے والی جرائم پیشہ سرگرمیاں حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج سمجھی جاتی ہیں۔
انٹرنیٹ کے اس تاریک حصے میں جرائم کی سرگرمیوں کی نوعیت غیر قانونی ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کرنے سے لے کر ہتھیاروں کی خرید و فروخت اور دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ سازی تک پھیلی ہوئی ہے۔
ڈارک نیٹ کیا ہے؟
ڈارک نیٹ انٹرنیٹ سے ہٹ کر کوئی علیحدہ سے نیٹ ورک نہیں ہے۔ ’ڈارک ویب‘ یا ’ڈارک نیٹ‘ نامی اس انڈرگراؤنڈ انٹرنیٹ پر عام انٹرنیٹ کے کئی نیٹ ورکس اور ٹیکنالوجی کو برتتے ہوئے اسے استعمال کرنے والے ماہر صارفین ایک دوسرے کے ساتھ ڈیجیٹل مواد شیئر کرتے ہیں۔
ڈارک نیٹ کے صارفین ایسے پرٹوکول استعمال کرتے ہیں جن کی بدولت وہ حکومتوں اور کمپنیوں کی نظروں میں آئے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ پاتے ہیں۔ عام صارف اور حکومتی ادارے ان صارفین کی نشاندہی نہیں کر پاتے اور انہیں معلوم نہیں پڑتا کہ کون سا مواد کس شخص نے شیئر کیا اور کس نے ڈاؤن لوڈ کیا۔
ڈارک نیٹ تک رسائی گوگل کروم یا کسی اور عام براؤزرز کی مدد سے ممکن نہیں ہے، بلکہ اس تک رسائی کے لیے Tor نامی براؤزر استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹور ابتدائی طور پر امریکی نیوی کا خفیہ منصوبہ تھا تاہم بعد ازاں ’اوپن کوڈ‘ کی بدولت عام صارفین کی بھی اس براؤزر تک رسائی ممکن ہو گئی۔
آپ آئی فون کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟
2016ء میں پہلی بار آئی فون کی فروخت میں کمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایپل کی کل کمائی کا 63 فیصد حصہ آئی فون سے آتا ہے۔ آئی فون اپنے لیے مارکیٹ میں ایک خاص مقام بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
جی ہاں، ’جامنی‘
جس وقت آئی فون صرف ڈرائنگ بورڈ پر بنا ایک آئيڈيا تھا، اس کا پروجیکٹ کوڈ ’جامنی‘ تھا۔ ایپل کے ایک سابق مینیجر کے مطابق جامنی کی ٹیم جس جگہ کام کرتی تھی، وہ کسی ہاسٹل کے کمرے سے ملتا جُلتا تھا۔ کمرے میں پیزا کی مہک تھی اور دیواروں پر ایک فائٹ کلب کے پوسٹر۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
کیا وقت ہوا ہے؟
سٹیو جابز پہلا آئی فون 29 جون 2007ء کو صبح 9:42 بجے دنیا کے سامنے لائے۔ تقریب کا وقت اس طرح کا رکھا گیا تھا کہ جب لوگ نئی مصنوعات کی تصاویر دیکھیں تو ڈسپلے پر وہی وقت نظر آ رہا ہو، جو اُس لمحے اصل وقت ہو۔ وقت کی اس پابندی کا خیال کمپنی ہمیشہ رکھتی چلی آئی ہے گو 2010ء میں آئی پیڈ لانچ کرتے وقت ایک منٹ کا فرق آ گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Mabanglo
اگلی جنریشن کی ٹیکنالوجی
یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلا آئی فون 599 ڈالر کا تھا جو کہ تب خاصا مہنگا تھا لیکن ایک فون وہ سب کچھ کر سکتا تھا، جو اس وقت تک مجموعی طور پر 3000 ڈالر کی قیمت والے مختلف آلات مل کر کرتے تھے۔ آئی فون نے سی ڈی پلیئر، کمپیوٹر، فون اور آنسرنگ مشین سب کی ایک ساتھ جگہ لے لی۔
تصویر: colourbox
کیا سکرین پر کریک ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ جیب سے جلدی میں فون نکالتے ہوئے اکثر فون ہاتھ سے پھسلتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے۔ ایسے میں آئی فون کی سکرین اکثر چٹخ جاتی ہے لیکن اسکائی ڈائیور جیرڈ میکنی نے 2011ء میں اپنا آئی فون 13،500 فٹ کی بلندی سے نیچے گرا دیا۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اتنی بلندی سے نیچے گرنے کے باوجود وہ اپنے اس فون سے کالز کر سکتا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
آئی فون کا آئیڈیا آئی پیڈ سے آیا
2000ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ایپل کمپنی ورچوئل کی بورڈ والے ایک ٹیبلیٹ کمپیوٹر کی تیاری پر کام کر رہی تھی۔ ایک دن ایپل کے ملازمین اپنے موبائل فون کی سست رفتاری پرتنقید کر رہے تھے تو انہیں اچانک یہ خیال آیا کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے آئی پیڈ بنانے کا سوچا جا رہا ہے، اُسی کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طرح کا فون بھی تو بنایا جا سکتا ہے۔ اور تب وہ ایک انقلابی نوعیت کا سمارٹ فون بنانے میں جُت گئے۔
تصویر: Getty Images/Feng Li
کروڑوں آئی فون فروخت
ایپل 2007ء سے اب تک تقریباً 90 کروڑ آئی فون فروخت چکا ہے لیکن چین میں اقتصادی بحران کی وجہ سے ایپل نے پہلی بار خبردار کیا ہے کہ اس کی 2016ء کے پہلے کوارٹر کی فروخت 2015ء کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے تاہم لوگوں میں ایپل کا جنون اُسی طرح سے برقرار ہے۔
تصویر: DW/M.Bösch
محبت بھی نفرت بھی
ایک دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ایپل اور سام سنگ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں کمپنیوں کے درمیان پیٹنٹ کے موضوع پر برسوں سے کئی بڑے مقدمے چل رہے ہیں تاہم ایک محاذ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق سام سنگ ہی وہ چِپ تیار کرتا ہے، جو آئی فون میں استعمال ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/Edelweiss
7 تصاویر1 | 7
ڈارک نیٹ پر کس قسم کی جرائم پیشہ سرگرمیاں ہوتی ہیں؟
انٹرنیٹ پر منظم جرائم پر نظر رکھنے والے ادارے IOCTA کے مطابق انٹرنیٹ کے اس تاریک گوشے پر دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں کافی حد تک محدود ہیں تاہم سائبر کرائم سے متعلق ٹولز سے لے کر آتشیں اسلحے سمیت کئی ممنوعہ اشیا کی خرید فروخت کی جا رہی ہے۔
گزشتہ برس جرمن شہر میونخ کی مارکیٹ میں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک کرنے والے نوعمر شخص نے بھی پستول ڈارک نیٹ سے ہی خریدا تھا۔ علاوہ ازیں چائلڈ پورنو گرافی اور دیگر غیر قانونی ڈیجیٹل مواد کی خرید و فروخت بھی ڈارک نیٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔
IOCTA کی رپورٹ کے مطابق ڈارک نیٹ پر خرید و فروخت کے لیے ڈیجیٹل کرنسی Bitcoin ’بِٹ کوائن‘ استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل کرنسی سن 2009 میں متعارف کرائی گئی تھی۔
جرمنی میں گزشتہ ہفتے سکیورٹی حکام نے ڈارک نیٹ پر ’چائلڈ پورن‘ پلیٹ فارم چلانے والے مشتبہ سرغنہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ عام طور پر ایسی گرفتاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم جرمن پولیس نے نہ صرف اس مشتبہ سرغنہ کو بلکہ جرمنی اور آسٹریا میں متعدد افراد کو بھی گرفتار کر لیا۔
جدید ٹیکنالوجی مستقبل قریب میں ہماری دنیا کیسے بدل دے گی؟
جرمن شہر ہینوور میں جدید ٹیکنالوجی کا سالانہ میلہ سیبِٹ 2017 جاری ہے۔ رواں برس اس بڑی بین الاقوامی نمائش میں کیا نئی چیزیں متعارف کرائی جا رہیں ہیں اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے بدل کر رکھ دیں گی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Gentsch
گاڑی جو آپ کی عادات سمجھتی ہے
اس سال سیبِٹ میں مشہور کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے نامور ادارے آئی بی ایم ایک ساتھ دکھائی دیے۔ دونوں ادارے ایک ایسی اسمارٹ کار بنانے میں مصروف ہیں جو اپنے مالک کی عادات اور مزاج سے آگاہ ہو گی۔ آپ کی آج مصروفیات کیا ہیں؟ مستقبل کی کار نہ صرف ان باتوں سے واقف ہو گی بلکہ آپ کو مشورے بھی دی گی۔ یوں سمجھیے اسمارٹ کار اب آپ کی مشیر بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
گھر، شہر، ملک، دنیا - سب ایک دوسرے سے منسلک
سن 2020 تک پچاس ارب سے زائد ڈیوائسز انٹرنیٹ سے منسلک ہوں گی۔ چند برس بعد کی دنیا میں آپ کا موبائل اور کار ہی اسمارٹ نہیں ہوں گے بلکہ سارا گھر اور شہر بھی اسمارٹ ہوں گے۔ جیسے آج کی ’اسمارٹ واچ‘ ہماری نبض اور دل کی دھڑکن پر نظر رکھتی ہے آئندہ اسی طرح پورا گھر، بلکہ پورا شہر بھی آپ کی زندگیاں آسان بنانے میں مددگار ہوں گے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
جاپان: اس سال کا پارٹنر ملک
سیبِٹ 2017 نمائش میں جاپان کو پارٹنر ملک کے طور پر شریک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی اختراعات کے لیے جاپان ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس برس سیبِٹ میں جاپانی ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کمپنیاں شریک ہیں اور نمائش کے افتتاح میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے خاص طور پر شرکت کی تھی۔ جاپانی روبوٹ ٹیکنالوجی اس مرتبہ نمایاں رہی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
دنیا بھر سے ہزاروں کمپنیوں کی شرکت، پاکستان ندارد
اس برس کی نمائش میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں شریک ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی سے لے کر دفاتر کی ڈیجیٹلائزیشن، صنعتوں اور صحت کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال تک مختلف النوع نئی ایجادات دکھائی جا رہی ہیں۔ بھارت سے قریب دو سو اور بنگلہ دیش سے بھی چھیالیس کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں تاہم پاکستان سے اس مرتبہ بھی کسی کمپنی نے شرکت نہیں کی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
تھری ڈی پرنٹر سے انسانی اعضا کی پرنٹنگ
مستقبل قریب میں جدید ٹیکنالوجی انسانی صحت میں کیسے مدد گار ثابت ہو گی، اس کی ایک بھرپور جھلک بھی اس نمائش میں دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی اعضا اور انسانی ٹیشوز کی پرنٹنگ۔ اس سال صحت اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر کئی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جن میں ماہرین صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اب تک کی گئی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
حقیقی اور ورچوئل کا مٹتا ہوا فرق
مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریئیلیٹی نیا موضوع نہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی نمائش میں یوں لگا جیسے آئندہ کے چند برسوں میں حقیقی اور مرئی کا فرق بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ پہلے ’ورچوئل ریئیلیٹی‘ عینکوں کے ذریعے ایک غیر حقیقی دنیا کی سفر کیا جا سکتا تھا لیکن اب کی بار تو ایسی ایجادات دیکھی گئیں جن کے ذریعے صرف آنکھیں ہی نہیں، بلکہ پورا انسانی جسم ایک غیر حقیقی دنیا میں جا کر محسوسات کا احاطہ کر سکے گا۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ڈیجیٹل دنیا کتنی محفوظ ہے؟
جب انسان سے منسلک قریب ہر ڈیوائس انسانی موجودگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہو تو پھر یہ خدشہ بھی ہمہ وقت رہتا ہے کہ ’بِگ بردر‘ بھی ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سال کے سیبِٹ میں ’ڈیجیٹل سکیورٹی‘ کا موضوع بھی نمایاں رہا۔ کئی کمپنیوں نے ایسے آلات کی نمائش کی جو ہمارے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بھی اس بارے میں ویڈیو کانفرنس کال کے ذریعے خطاب کیا۔