ڈارک نیٹ پر غیر قانونی تجارت: کئی ممالک میں چھاپے، گرفتاریاں
26 اکتوبر 2021
دنیا کے کئی ممالک میں غیر قانونی آن لائن تجارت کے خلاف پولیس کی طرف سے وسیع تر اور مربوط کارروئی کی گئی ہے۔ اس دوران یوروپول کی قیادت میں ڈارک نیٹ پر تجارت کے الزام میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
اشتہار
نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ سے منگل چھبیس اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جن 150 ملزمان کو حراست میں لیا گیا، ان میں کئی بہت اہم افراد بھی شامل ہیں اور وہ سب کے سب انٹرنیٹ کی خفیہ ویب سائٹس پر ہتھیاروں اور منشیات سمیت غیر قانونی اشیاءکی فروخت میں ملوث تھے۔
یورپی پولیس کے ادارے یوروپول نے بتایا ہے کہ بیک وقت کئی ممالک میں بڑے مربوط انداز میں مکمل کیے گئے اس آپریشن کو 'ڈارک ہنٹر‘ کا نام دیا گیا تھا، جو ڈارک ویب کے خلاف آج تک کیا جانے والا سب سے بڑا آپریشن تھا۔
اس آپریشن کے دوران مختلف ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے مجموعی طور پر نقدی اور کرپٹو کرنسیوں کی صورت میں تقریباﹰ 27 ملین یورو کی رقوم بھی برآمد کر لیں۔ اس کے علاوہ ان ملزمان کے قبضے سے بہت سی منشیات اور درجنوں ہتھیار بھی برآمد کر لیے گئے۔
دی ہیگ میں قائم یوروپول نے بتایا کہ یہ آپریشن آسٹریلیا، بلغاریہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا میں کیا گیا۔
اس دوران صرف امریکا سے ہی حکام نے 65 افراد کو گرفتار کر لیا۔ اس کے علاوہ جرمنی سے 47 اور برطانیہ سے بھی 24 ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔
یوروپول نے اپنے بیان میں کہا، ''ان 150 گرفتار شدگان میں کئی ایسے بڑے ملزم بھی شامل ہیں، جنہیں ہائی ویلیو ٹارگٹ سمجھا جاتا تھا۔ ان ملزمان کے قبضے سے بڑی رقوم اور ڈیجیٹل کرنسیوں کے علاوہ 45 گنیں اور 234 کلو گرام (516 پاؤنڈ) منشیات بھی برآمد کر لی گئیں۔‘‘
ڈارک نیٹ عام طور پر انٹرنیٹ کی ایسی خفیہ ویب سائٹس کو اجتماعی طور پر کہا جاتا ہے، جن تک رسائی عام ویب سائٹس کی طرح نہیں بلکہ خصوصی سافٹ ویئر اور کئی مختلف پاس ورڈز کے ساتھ ہی ممکن ہوتی ہے۔ ڈارک نیٹ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہاں جانے والے صارفین کی شناخت بھی خفیہ رہتی ہے اور ان کا پتہ چلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ڈارک نیٹ کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جنگلی حیات کے اسمگلر جنگی سردار اور جرائم پیشہ گروہ
تصویر: AP
غیر قانونی شکار سلامتی کے لیے خطرہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس شکاری وسطی افریقہ کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے افریقی حکومتوں سے اپیل کی ہے وہ ہاتھیوں، گینڈوں اور شیروں کے غیر قانونی شکار کو قومی اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیں۔
تصویر: AP
ہاتھی دانت کی اسمگلنگ دوگنا
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق حالیہ چند برسوں میں ہاتھی دانت اور گینڈوں کے سینگ کے غیر قانونی کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی یونین (IUCN) کے مطابق دنیا بھر میں 2007 سے اب تک ہاتھی دانت کی اسمگلنگ دوگنا ہو گئی ہے۔ صرف سن2011ء میں17 ہزار افریقی ہاتھی مار دیے گئے۔
تصویر: AP
جرائم پیشہ مسلح گروپ بھی ملوث
ماہرین کے مطابق جنگلی حیوانات کی غیر قانونی اسمگلنگ میں جرائم پیشہ مسلح گروہوں کا شامل ہونا شدید باعث تشویش ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنی رپورٹ میں یوگینڈا کی ’لارڈ آرمی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہاتھی دانت بیچ کر ہتھیار خریدتی ہے اور مجرمانہ کارروائیاں سر انجام دیتی ہے۔
تصویر: AP
ہاتھیوں کا قتل عام
اس کاروبار میں جدید ہتھیاروں سے لیس گروہوں کے شامل ہونے کی وجہ سے جنگلی حیوانات کا غیر قانونی شکار بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سال مارچ کے دوران افریقی ملک چاڈ میں مسلح گروہوں نے ایک ہی ہفتے میں 86 ہاتھیوں کو مشین گن سے ہلاک کیا۔ ان میں سے متعدد ہتھنیاں حاملہ تھیں۔
تصویر: KAREL PRINSLOO/AP/dapd
گینڈے کی بقاء بھی خطرے میں
گینڈے کے لیے ان کے قیمتی سینگ اب اتنے خطرناک ہوگئے ہیں کہ جرائم پیشہ شکاری ان کے حصول کے لیے گینڈے کو ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ کی جرمن شاخ کے مطابق ایک دہائی پہلے تک سال بھر میں تقریبا 12 گینڈے مارے جاتے تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 700 گینڈے سالانہ ہو گئی ہے۔
تصویر: picture alliance/WILDLIFE
ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی
وسطی افریقہ میں غیر قانونی شکار زیادہ بڑھا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ علاقے میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افریقی ممالک کیمرون، چاڈ اور گیبون مسلسل عدم استحکام کا شکار ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa
جسمانی اعضاء کا سفر
غیر قانونی شکاریوں سے ہاتھی دانت اور شیر کی کھالوں کو بچولیے خریدتے ہیں اور پھر انہیں کینیا، تنزانیہ اور موزمبیق بھیجا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ جنگلی حیوانات کے جسمانی اعضاء پھر فلپائن اور ویتنام سے ہو کر دوسرے ملکوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہاتھی دانت کی مانگ اور چین
زیادہ تر غیر قانونی ہاتھی دانت چین پہنچتے ہیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی ’ہاتھی دانت منڈی‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہاتھی دانت کی مصنوعات کی 70 فیصد مانگ چین پوری کرتا ہے۔ یہاں ہاتھی دانت پر نقش و نگاری کی جاتی ہے، ان کی مورتیاں بنتی ہیں، زیورات اور تحائف بھی۔