ڈالر، ڈیڑھ سو پر ناٹ آؤٹ
17 مئی 2019جمعے کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں مزید تین روپے کا اضافہ ہوا اور وہ پاکستانی تاریخ میں اب تک کی سب سے بلند ترین ڈیڑھ سو روپے کی سطح پر فروخت ہوا۔ رواں ہفتے ہی پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ طے پایا تھا۔
ڈالرکی قدر میں اضافے کے معاملے پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر زبردست بحث جاری ہیں، جس میں ایک طرف حکم ران جماعت پی ٹی آئی کے حامی اسے گزشتہ حکومتوں کے پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت مخالف افراد اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسوں پر عائد کر رہے ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف فہیم اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پی پی پی (پاکستان پیپلز پارٹی) اور پی ایم ایل این (پاکستان مسلم لیگ نواز) کے چند امیر حامی بھاری تعداد میں ڈالر خرید رہے ہیں تاکہ روپے کی قدر کم ہو اور اس کا الزام حکومت پر عائد کیا جا سکے۔ کوئی اپنے ملک کے حوالے سے اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ تو اپنے مفادات کے لیے ملک ہی جلا کر خاک کر دیں گے۔‘‘
ایک اور سوشل میڈیا صارف راشد طنزیہ انداز سے لکھتے ہیں، ’’امریکی ڈالر پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں تاریخ کی بلند ترین سطح ڈیڑھ سو روپے کے برابر ہو گیا ہے۔ دوستو گھبرانا نہیں ہے، کیوں کہ ہمارا وزیراعظم ہینڈسم بھی ہے اور اس نے ورلڈ کپ بھی جیت رکھا ہے۔‘‘
ایک اور سوشل میڈیا صارف فائقہ لکھتی ہیں، حکومت نے ایک اور ریکارڈ قائم کر دیا اور ایک اور سنگِ میل عبور ہوا۔ ڈالر ڈیڑھ سو روپے سے بھی آگے نکل گیا۔ میں سچ میں رو رہی ہوں، وزیراعظم عمران خان یہ کیا ہے؟ میں نے ادائیگیاں کرنا ہیں۔‘‘
سوشل میڈیا صارف محمد تقی سن 1992 کے ورلڈ کپ کے حوالے سے لکھتے ہیں، ’’میرے خیال میں تب ایک ڈالر 18 روپے کا ہوتا تھا اور وزیراعظم نواز شریف تھا۔‘‘
اس موضوع پر مختلف افراد حکومت اور اپوزیشن کا مذاق اڑاتے بھی دکھائی دے رہے ہیں اور کارٹونز تک کا استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارف شعیب ایس وادھو ایک کارٹون پوسٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’بہترین معیشت ایک بدترین حکومت کے ساتھ‘‘