ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر 35 برسوں کی کم ترین سطح پر
18 مارچ 2020
برطانیہ میں آج بدھ اٹھارہ مارچ کو پاؤنڈ سٹرلنگ کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر گزشتہ 35 برسوں کے دوران اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث مالیاتی منڈیوں میں پایا جانے والا خوف بنا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
اشتہار
لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یورپ میں برطانیہ بھی کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ اس وجہ سے ملکی معیشت کی کارکردگی پر انتہائی نوعیت کے ممکنہ منفی اثرات کے باعث مالیاتی منڈیوں میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔
حصول علم کے لیے طالب علم کن ممالک کا رخ کرتے ہیں؟
ایک جائزے کے مطابق گزشتہ برس پانچ ملین سے زائد طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ سن 2016 کے دوران اعلیٰ تعلیم کے کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والے طلبا کے پسندیدہ ترین ممالک پر ایک نظر۔
تصویر: Fotolia/Monkey Business
1۔ امریکا
امریکا غیر ملکی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے 19 فیصد نے امریکی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/W. Lie
2۔ برطانیہ
طالب علموں کی دوسری پسندیدہ ترین منزل برطانیہ ہے۔ برطانوی یونیورسٹیوں میں 8.5 فیصد بین الاقوامی طالب علم زیر تعلیم رہے۔
تصویر: Migrant Voice
3۔ آسٹریلیا
تیسرے نمبر پر بھی انگریزی زبان میں تعلیم دینے والا ایک اور ملک آسٹریلیا رہا۔ مجموعی طور پر بین الاقوامی طالب علموں میں سے 6.6 فیصد نے آسٹریلوی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. He
4۔ جرمنی
جرمنی قومی سطح پر انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر رہا اور 4.9 فیصد انٹرنیشنل طلبا نے جرمن جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture alliance/ZB/J. Woitas
5۔ فرانس
دنیا بھر سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے فرانس کے حصے میں 4.8 فیصد طالب علم آئے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/M. Clement
6۔ روس
غیر ملکی طالب علموں کی چھٹی پسندیدہ منزل روس تھا، جہاں مجموعی طور پر انٹرنیشنل طالب علموں میں سے 4.8 فیصد نے تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: Getty Images/J. Koch
7۔ کینیڈا
کینیڈا میں بھی تعلیم انگریزی زبان میں دی جاتی ہے۔ 3.7 فیصد غیر ملکی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا کی جامعات کو ترجیح دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Bobylev
8۔ جاپان
سن 2016 کے دوران 2.8 فیصد بین الاقوامی طلبا نے جاپان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Bridgestone World Solar Challenge
9۔ چین
چینی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد مجموعی عالمی تعداد کا 2.8 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/Vivien Wong
10۔ ملائیشیا
ملائیشیا غیر ملکی طالب علموں کی دسویں پسندیدہ منزل رہا، جہاں کی جامعات میں انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی تعداد کے 2.4 فیصد حصے نے حصول تعلیم کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/A. Cupak
10 تصاویر1 | 10
ان حالات میں بین الاقوامی سرمایہ کار خوف و ہراس کا شکار ہو کر برطانوی کرنسی پاؤنڈ کے بجائے مقابلتاﹰ زیادہ محفوظ سمجھی جانے والی امریکی کرنسی ڈالر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
یہی رجحان 18 مارچ کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ سٹرلنگ کی قدر میں اتنی زیادہ کمی کا سبب بنا کہ پاؤنڈ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 1985ء سے لے کر آج تک کی اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی۔
پاؤنڈ کی قدر میں 'تاریخی کمی‘ کا رجحان
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاؤنڈ سٹرلنگ کو اس وقت مالیاتی منڈیوں میں جس دباؤ کا سامنا ہے، اس کے عروج پر برٹش پاؤنڈ کی قدر تقریباﹰ دو فیصد کمی کے بعد 1.1828 امریکی ڈالر تک آ گئی۔
بعد ازاں کاروبار کے دوران اس قدر میں کچھ بہتری آئی اور معمولی سے اضافے کےساتھ یہ دوبارہ 1.1861 ڈالر فی پاؤنڈ ہو گئی۔ قبل ازیں ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک برٹش پاؤنڈ 1.31 امریکی ڈالر کے برابر تھا۔
بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے مارکیٹس ڈاٹ کوم کے تجزیہ کار نیل ولسن کے مطابق، ''پاؤنڈ کی قدر میں تاریخی کمی کا یہ رجحان اس امر کا نتیجہ ہے کہ برٹش پاؤنڈ کو موجودہ حالات میں قدرے پرخطر اور کم محفوظ غیر ملکی کرنسی سمجھا جا رہا ہے اور سرمایہ کار اب زیادہ محفوظ امریکی ڈالر کا رخ کرنے لگے ہیں۔‘‘
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
برطانیہ میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ
برطانیہ میں، جس نے جنوری کے آخر میں یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس اب تک تقریباﹰ دو ہزار افراد کو اپنا شکار بنا چکی ہے۔ ان مریضوں میں سے اب تک تقریباﹰ 70 کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔
برطانوی کار ساز صنعت بتدریج فروخت ہوتی ہوئی
سن 1958 میں برطانیہ کا نمبر کار صنعت میں دوسرا تھا۔ امریکا کار سازی میں پہلے مقام پر تھا۔ سن 2008 میں برطانیہ کی پوزیشن دوسری سے بارہویں پر آ گئی ہے۔ بے شمار برطانوی کار ساز ادارے فروخت کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
آسٹن مارٹن: جیمز بانڈ کی گاڑی بھی فروخت ہونے لگی
یہ لگژری اسپورٹس کار سن 1913 سے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پسند کی جاتی تھی۔ سن 1964 کی بانڈ سیریز کی فلم ’گولڈ فنگر‘ میں اس کا پہلی باراستعمال کیا گیا۔ اس فلم میں جیمزبانڈ کا کردار شین کونری نے ادا کیا تھا۔ اس کار کو چھ مختلف بانڈ فلموں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ رواں برس اس کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اماکاناً اس کو 4.3 بلین یورو کے لگ بھگ خریدا جا سکے گا۔
تصویر: Imago/Cinema Publishers Collection
جیگوار: اب بھی سڑکوں پر موجود ہے
مہنگی لگژری کاروں میں شمار کی جانے والی یہ کار جیگوار لینڈ روور کا برانڈ ہے۔ جیگوار لینڈ روور ایک کثیر الملکی کار ساز ادارہ ہے۔ اب اس کی مالک ایک بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز ہے، جس نے اسے سن 2008 میں خریدا۔ اس کار ساز ادارے کی بنیاد سن 1922 میں رکھی گئی تھی۔ اس ادارے کو برطانوی وزیراعظم کے لیے موٹر کار تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسے ملکہ برطانیہ کی پسندیدگی کی سند بھی حاصل رہی ہے۔
تصویر: Imago/Sebastian Geisler
ٹرائمف: ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ٹرائمف اسپورٹس کار خاص طور پر امریکی شائقین کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی تھی۔ یہ کار سن 1968 سے 1976 کے دوران باقاعدگی سے امریکی مارکیٹ کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دوران تقریباً ایک لاکھ موٹر کاریں برآمد کی گئیں۔ اس کار کے ساتھ اِس کے دلدادہ خاص لگاؤ رکھتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
رولز رائس: دنیا کی بہترین کار
سن 1987 کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا بھر میں کوکا کولا کے بعد رولز رائس سب سے مقبول برانڈ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس کار ساز ادارے نے ہوائی جہازوں کے انجن بھی بنانے شروع کر دیے۔ عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی مشکلات کے تناظر میں لندن حکومت نے اس قومیا لیا اور پھر سن 1987 میں فروخت کیا تو جرمن ادارے بی ایم ڈبلیو نے خرید لیا۔ رولز رائس کی فینٹم کار کی قیمت چار لاکھ یورو سے شروع ہوتی ہے۔
تصویر: DW
مورس مائنر: ایک انگش کار
مورس مائنر کار کی پروڈکشن سن 1948 میں شروع کی گئی۔ سن 1972 تک یہ کار سولہ لاکھ کی تعداد میں تیار کر کے مارکیٹ میں لائی گئی۔ یہ واحد انگلش کار ہے، جو دس لاکھ سے زائد فروخت ہوئی۔ بعض افراد اس کے ڈیزائن کو خالصتاً انگریز مزاج کے قریب خیال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
لوٹس: ایک جاندار حسن کا امتزاج
لوٹس کار ساز ادارہ اسپورٹس کاروں کے مختلف برانڈ تیار کرتا ہے۔ اس کا پروڈکشن ہاؤس دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے ہوائی اڈے پر تعمیر کیا گیا۔ سن 2007 میں چینی کار ساز ادارے گیلی نے لوٹس کار کے اکاون فیصد حصص خرید لیے اور بقیہ کی ملکی ایٹیکا آٹو موٹو کے پاس ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.-F. Monier
رینج روور: جدید دور کا اہم نام
لینڈ روور کار ساز ادارے کی یہ پروڈکشن عالمی شہرت کی حامل ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ سن 1970 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت اس کا چوتھا ماڈل مارکیٹ میں ہے۔ اس کے نئے ماڈل کی امریکا میں قیمت تقریباً دو لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ یہ کار خاص طور پر جدید ویل ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مورگن: انتظار کریں اور شاہکار آپ کے ہاتھ میں
مورگن موٹر کمپنی کا قیام سن 1910 میں ہوا تھا۔ مورگن پروڈکشن ہاؤس وُرسٹرشائر میں واقع ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد صرف 177 ہے۔ یہ ایک برس میں صرف 1300 گاڑیاں تیار کرتا ہے۔ اس گاڑی کی پروڈکشن انسانی ہاتھ کا شاہکار ہے۔ ایک نئی مورگن کار خریدنے کے لیے کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انتظار کا یہ سلسلہ گزشتہ دس برس سے دیکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/HIP/National Motor Museum
لینڈ روور: شاہی خاندان کی سواری
چار پہیوں کو بھی استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھنے والی یہ خاص موٹر کار برطانوی ملٹی نیشنل ادارے جیگوار لینڈ روور کی تخلیق ہے۔ اس کار ساز ادارے کی ملکیت سن 2008 سے اب بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز کے پاس ہے۔ اس برطانوی شاندار گاڑی کو سن 1951 میں بادشاہ جورج نے پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
تصویر: Imago/CTK Photo
لنڈن کیب: ایک اور شاندار تسلسل
لندن کیب برطانوی دارالحکومت کے قریب واقع ایک گاؤں ہیکنی میں تیار کی جاتی ہے۔ اس گاؤں نے سن 1621 میں پہلی گھوڑوں سے کھینچی جانے والی ٹیکسی کوچ سروس متعارف کرائی تھی۔ امریکی شہر نیویارک میں ٹیکسی کے لیے ’ہیک‘ کا لفظ بھی اس گاؤں سے مستعار لیا گیا۔ لندن کی ٹیکسی سروس اسی قدیمی ہارس کوچ سروس کا تسلسل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایم جی بی، ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ایم جی بی کار دو دروازوں والی اسپورٹس موٹر کار ہے۔ اس کو سن 1962 میں پہلی مرتبہ تیار کیا گیا۔ اس کار کی پروڈکشن برٹش موٹر کارپوریشن (BMC) نے شروع کی اور یہی کار ساز ادارہ بعد میں برٹش لی لینڈ کہلاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مِنی: چھوٹی کار بھی عمدہ ہو سکتی ہے
سن 1999 میں مِنی نام کی کار کو بیسویں صدی کی دوسری بہترین کار قرار دیا گیا تھا۔ اس کو سن 1960 میں متعارف کرایا گیا جب بڑی برطانوی موٹر کاروں کا دور دورہ تھا۔ جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو نے اس کار ساز ادارے کو سن 1994 میں خریدا اور پھر سن 2000 میں اِس کے بیشتر حصص فروخت کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
آسٹن: نظرانداز کی جانے والی اہم کار
اس نام کی موٹر کار سن 1987 تک تیار کی جاتی رہی ہے۔ اس کو بنانے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا تھا۔ اس کا ٹریڈ مارک اب چینی کار ساز کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (SAIC) کی ملکیت ہے۔ ابھی اس نام کی موٹر کار مارکیٹ میں کم دستیاب ہے۔
تصویر: dapd
بینٹلے: ویلز پر ایک شاہکار
بینٹلے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے کار ساز ادارے فولکس ویگن کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کار ساز ادارے کے قیام کو ایک سو برس ہونے والے ہیں۔ اس کے بیشتر پرزے اور اجزا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فولکس ویگن کی ڈریسڈن میں واقع فیکٹری میں بنتے ہیں۔ یہ انتہائی شاہکار موٹر کار تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کی اشرافیہ اس کو اپنے گیراج میں رکھنا فخر سمجھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
14 تصاویر1 | 14
ماہرین کا خیال ہے کہ برطانیہ میں کووِڈ انیس کے مریضوں کی اور اس بیماری کی وجہ سے ہلاکتوں کی یہ تعداد محض سرکاری اعداد و شمار ہیں اور عملی طور پر ایسے مریضوں اور ہلاک شدگان کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ برطانیہ میں پہلے ہی سے بہت زیادہ دباؤ کا شکار صحت عامہ کا نظام بھی اس حالت میں نہیں کہ کورونا وائرس کے ہزارہا مریضوں کو کامیابی سے اور انہیں قرنطینہ میں رکھتے ہوئے ان کے تسلی بخش علاج کو ممکن بنا سکے۔
330 بلین پاؤنڈ کا مالیاتی پیکج
وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت کی طرف سے کل منگل کے روز اعلان کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور خاص طور پر بہت زیادہ مالی نقصانات کا سامنا کرنے والے چھوٹے کاروباری اداروں کی مدد کے لیے حکومت 330 بلین پاؤنڈ (399 بلین ڈالر) مالیت کا ایک پیکج متعارف کرائے گی۔ اس کے ذریعے متاثرہ کاروباری اداروں کو قرضے اور قرضوں کی ضمانتیں دی جائیں گی۔
اس کے علاوہ لندن حکومت نے مزید 20 بلین پاؤنڈ مالیت کا چھوٹے تاجروں کی مدد کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ اور مالی اعانتوں کا ایک ایسا پروگرام بھی بنایا ہے، جس کا مقصد چھوٹے نجی یا عوامی کاروباری اداروں کو دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے ایف پی)
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔