1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈان کے خلاف احتجاج  و دھکمی: سیاسی و صحافتی حلقوں کی مذمت

عبدالستار، اسلام آباد
3 دسمبر 2019

پاکستان کے سب سے بڑے اور معتبر انگریزی روزنامے ڈان کے خلاف ملک میں احتجاجی مہم جاری ہے۔ اسلام آباد میں ڈان نیوز کے دفتر کے سامنے احتجاج کے بعد آج کراچی پریس کلب کے سامنے میں بھی مظاہرہ کیا گیا۔

Pakistan - Zeitung
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

روزنامہ ڈان کے خلاف کل بروز پیر کچھ درجن افراد نے ڈان کے اسلام آباد دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔ اس موقع پرمظاہرین نے پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی‘  کے حق میں نعرے لگائے۔ ڈان اخبار کی  ایک رپورٹ کے مطابق مظاہرین روزنامے کی لندن حملے کی کوریج پر مشتعل تھے، جس میں انگریزی اخبار نے حملہ آورکی شناخت کا اپنی ہیڈ لائن میں تذکرہ کیا تھا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اخبار اس پر معافی مانگے اور خبر کی تردید کرے۔ ڈان اخبار نے لکھا کہ مظاہرین نے تین گھنٹے تک دفتر کا محاصرہ جاری رکھا اور کسی ملازم کو نہ ہی اندر آنے دیا اور نہ باہر جانے دیا۔ بعد میں مظاہرین نے ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران کی موجودگی میں اخبار کی انتظامیہ سے مزاکرات کیے اور پھر منتشر ہو گئے۔

اس واقعے کے باعث ملک کے صحافتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور صحافتی تنظیمیں اس واقعے کی ذمہ داری ملک کے طاقتور اداروں پر ڈال رہے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریڑی جنرل ناصر زیدی کا خیال ہے کہ مظاہرین کی سر پرست 'خلائی مخلوق‘  تھی۔ ناقدین کے خیال میں یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ڈان اور ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی مسئلے پرتنازعہ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس انگریزی روزنامے سے طاقتور حلقوں کو شکایت رہی ہے۔ 'ڈان لیکس‘  کی وجہ سے ان تعلقات میں مزید تلخی آئی، جو اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ ناصر زیدی کے بقول ''خلائی مخلوق کے علاوہ اور کون ان مظاہرین کے پیچھے ہو سکتا ہے۔ یہ فاشزم کی بد ترین شکل ہے۔ ان سے ایک غیر جانبدار اخبار برداشت نہیں ہو رہا۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی آج اسلام آباد میں ڈان نیوز کے دفتر کا دورہ کیا۔ انہوں نے روزنامے کے اعلیٰ عہدیداران سے ملاقات میں اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ادارے کے خلاف دھمکیوں اور احتجاجی مہم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

جہاں پاکستان میں صحافتی تنظیمیں ڈان کی رپورٹنگ کو ذمہ دارانہ قرار دیتے ہیں اور اس واقعے کے پیچھے ملک کے طاقتور حلقوں کا ہاتھ دیکھتے ہیں وہیں وہ تجزیہ نگار جو ریاستی اداروں کا میڈیا میں دفاع کرتے ہیں، ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے خیال میں ڈان کی رپورٹنگ ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ معروف تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ میڈیا کو کوریج کے دوران عوامی جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے بقول ''لندن حملے کا حملہ آور برطانوی شہری تھا۔ پیدا وہاں ہوا، تعلیم وہاں حاصل کی، جرم وہاں کیا اور سزا بھی وہاں ہوئی۔ تو ایسی صورت میں کوئی اخبار اگر یہ تاثر دے کہ وہ پاکستانی ہے تو لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی کیونکہ ان کے خیال میں اس سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ تو جب جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو لوگ مشتعل ہوتے ہیں اور ان کو کنڑول کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘

’صحافت ہتھیار ڈالنے کا نہیں، سچ رپورٹ کرنے کا نام ہے‘

اس حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریڑی جنرل کا کہنا تھا ''جس خبر کی ہیڈ لائن پر بظاہر 'خلائی مخلوق‘ کو اعتراض ہے۔ اس طرح کی ہیڈ لائن تو پوری دنیا میں لگی ہے۔ اس طرح اظہار رائے کی آزادی پر حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔  ہم ڈان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مشورے کے بعد ہم آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں