ڈاونچی کے پورٹریٹ کی صدیوں پرانی مسروقہ کاپی کی اچانک دریافت
20 جنوری 2021
عظیم اطالوی مصور لیونارڈو ڈاونچی کی ایک شاہکار پینٹنگ کی پانچ سو سال پرانی مسروقہ کاپی اچانک مل گئی ہے۔ ڈاونچی کے ایک شاگرد کی بنائی ہوئی یہ پینٹنگ جس میوزیم کی ملکیت ہے اسے علم ہی نہیں ہو سکا تھا کہ وہ چوری ہو چکی تھی۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ پینٹنگ یسوع مسیح کا ایک ایسا پورٹریٹ ہے، جو پہلی بار بنایا تو ڈاونچی نے خود تھا لیکن جو پینٹنگ چوری ہوئی تھی وہ اس پورٹریٹ کی ایسی ہوبہو نقل تھی، جو ڈاونچی کے ایک شاگرد جیاکومو آلیبرانڈی نے بنائی تھی۔
میوزیم وبا کی وجہ سے کئی مہینوں سے بند
اطالوی شہر نیپلز کا جو عجائب گھر اس پورٹریٹ کا مالک ہے، اسے علم ہی نہیں تھا کہ یہ شاہکار چوری ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عجائب گھر اٹلی میں بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کئی مہینوں سے بند ہے۔
نیپلز پولیس نے بتایا کہ یہ پینٹنگ اس اطالوی شہر کے تقریباﹰ مضافات میں ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی۔ نیپلز ہی میں اس پینٹنگ کے مالک سان ڈومینیکو ماگیئورے میوزیم نے بتایا کہ مصوری کا یہ شاہکار گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے کے بعد اس وبائی مرض کی پہلی لہر کے اختتام تک اس میوزیم میں اپنی جگہ موجود تھا۔
گم شُدہ فن پارے ’لاسٹ آرٹ‘ کی وَیب سائٹ پر
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے اُس ذخیرے میں سے مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، جو اُس کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے اپارٹمنٹ سے ملے اور ضبط کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آنری ماتِیس کی ’بیٹھی ہوئی عورت‘
انٹرنیٹ پلیٹ فارم lostart.de پر جو مزید فن پارے دیکھے جا سکتے ہیں، اُن میں فنی شاہکاروں کے تاجر ہِلڈے برانڈ گُرلٹ کے بیٹے کورنیلئس گُرلٹ کے گھر سے ملنے والی آنری ماتِیس کی بنائی ہوئی پینٹنگ ’بیٹھی ہوئی عورت‘ بھی شامل ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ نیشنل سوشلسٹ دور میں لُوٹے گئے فن پارے ہیں، حکام نے فروری 2012ء میں انہیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
مارک شاگال کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘
کورنیلئس گُرلٹ کے ذخیرے میں سے مشہور فرانسیسی مصور مارک شاگال (1887ء تا 1985ء) کی پینٹنگ ’تمثیلی منظر‘ بھی ملی ہے۔ بیس ویں صدی کے اہم ترین مصورں میں شمار ہونے والے اظہاریت پسند مصور شاگال روسی نژاد یہودی تھے اور اُنہیں ’مصورں کی صف میں موجود شاعر‘ کہا جاتا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ولہیلم لاخنیٹ کی ’میز پر بیٹھی لڑکی‘
جرمن مصور ولہیلم لاخنیٹ (1899ء تا 1962ء) نے زیادہ تر شہر ڈریسڈن میں کام کیا۔ اُنہوں نے اپنے فن پاروں کے ذریعے جزوی طور پر نیشنل سوشلزم کی کھلی مخالفت کی۔ 1933ء میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے چند فن پاروں کو ’بگڑا ہوا آرٹ‘ قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔ فروری 1945ء میں ڈریسڈن پر فضائی بمباری کے نتیجے میں اُن کے زیادہ تر شاہکار تباہ ہو گئے۔ اب اُن میں سے چند ایک پھر سے منظر عام پر آئے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
آٹو گریبل کی ’نقاب میں‘
جرمن مصور آٹو گریبل (1895 تا 1972ء) کی تخلیقات کو جرمنی میں آرٹ کی تحریک ’نیو آبجیکٹیویٹی‘ یا ’نئی معروضیت‘ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد وہ KPD (کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی) کے رکن بنے، بعد میں ڈریسڈن میں ’رَیڈ گروپ‘ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے۔ 1933ء میں اُنہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے فن پاروں کو کمیونسٹ آرٹ قرار دے کر رَد کر دیا گیا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایرش فراس کی ’ماں اور بچہ‘
مصور ایرش فراس جرمن مصوروں کی ’لاپتہ نسل‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیشنل سوشلسٹ پروپیگنڈا نے اُن کی فنی سرگرمیوں کو بھی بڑے پیمانے پر محدود بنا دیا تھا۔ وہ ڈریسڈن کے فنکاروں کی ایک تنظیم کی مجلس عاملہ میں شامل تھے۔ اس تنظیم کو نیشنل سوشلسٹ حکومت نے تحلیل کر دیا تھا اور اُنہیں فنکار کے تشخص سے محروم کر دیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
لُڈوِک گوڈن شویگ کی ’مردانہ چہرہ‘
جرمن مجسمہ ساز لُڈوِک گوڈن شویگ اَیچنگز بنانے کے بھی ماہر تھے۔ اُن کی بنائی ہوئی اس گرافک تصویر کے ساتھ ساتھ ایک زنانہ تصویر بھی گُرلِٹ کے ذخیرے سے ملی ہے۔ امکان غالب ہے کہ یہ دونوں تصاویر بھی ’لوٹی ہوئی تصاویر‘ میں سے ہیں۔ ان تصاویر کے سابقہ مالکان کے ورثاء انہیں واپس مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
فرِٹس ماسکوس کی ’سوچتی ہوئی عورت‘
جرمن مجسمہ ساز فرِٹس ماسکوس (1896ء تا 1967ء) کے بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ ماسکوس کو ایک متنازعہ فنکار تصور کیا جاتا ہے۔ اُن کا ایک فن پارہ 1938ء میں برلن میں ’بگڑے ہوئے آرٹ‘ کی ایک نمائش میں دکھایا گیا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
ایڈورڈ مُنش کی ’شام، مالیخولیا وَن‘
ناروے کے اظہاریت پسند مصور ایڈرڈ مُنش کے کئی فن پارے گُرلِٹ کے ذخیرے میں سے برآمد ہوئے ہیں۔ یہ وہی مصور ہیں، جن کا مشہور ترین شاہکار ’چیخ‘ 2004ء میں اوسلو کے مُنش میوزیم سے چرا لیا گیا تھا لیکن 2006ء میں مل گیا تھا۔ اُن کے اس گرافک شاہکار پر درج ہے کہ یہ 1896ء میں تخلیق ہوا تھا۔
تصویر: Staatsanwaltschaft Augsburg
8 تصاویر1 | 8
سولہویں صدی میں بنایا گیا شاہکار
گزشتہ برس موسم خزاں میں جب اٹلی میں اس وبا کی دوسری لہر شروع ہوئی، تو نیپلز کا یہ عجائب گھر دوبارہ بند کر دیا گیا تھا۔ ایسا خزاں میں اس میوزیم کی بندش کے بعد ہی کسی وقت ہوا کہ یہ پورٹریٹ اس عجائب گھر سے چوری کر لیا گیا تھا، جس کا اس میوزیم کی انتظامیہ کو اس مسروقہ شاہکار کی دریافت تک علم ہی نہیں تھا۔
میوزیم کی انتظامیہ کے مطابق ڈاونچی کی بنائی ہوئی یسوع مسیح کی ایک پینٹنگ کی ہو بہو نقل کے طور پر یہ پورٹریٹ ڈاونچی کے ایک معروف شاگرد جیاکومو آلیبرانڈی نے 16 ویں صدی عیسوی میں بنایا تھا۔
اشتہار
فلیٹ کا مالک گرفتار
نیپلز کی پولیس کے مطابق یہ شاہکار پینٹنگ ایک خفیہ اطلاع ملنے پر اس جنوبی اطالوی شہر کے مضافات میں ایک فلیٹ پر اچانک مارے گئے چھاپے کے دوران برآمد کی گئی۔ یہ پینٹنگ اس فلیٹ کی خواب گاہ میں ایک الماری میں چھپا کر رکھی گئی تھی۔ اس فلیٹ کے 36 سالہ مالک کو پولیس نے مسروقہ قیمتی نوادرات خریدنے یا کسی سے لے کر اپنے قبضے میں رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
سوات میں لگنے والے’’ فیس آف‘‘ بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں ’’عدم برداشت‘‘کےموضوع پر پینٹنگز، فوٹوگرافی، فیشن ڈیزائنگ، تھیٹر، سیمنارز، مشاعرے، موسیقی اور فلم میکینگ کی ورکشاپس منعقد کی گئیں۔
تصویر: DW/A. Gran
آٹھ روزہ کیمپ کا انعقاد ہنرکدہ کے زیر اہتمام کیا گیا، جس کے لیے امریکی سفارت خانے کے کمیونٹی انگیجمنٹ آفس سے تعاون حاصل کیا گیا، جب کہ یو ایس ایڈ، پارسا، پی ڈی ایم اے، سواستو آرٹ اینڈ کلچر ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں نے کیمپ کے انتظامات میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
اس آٹھ روزہ کیمپ میں فنون لطیفہ کے ذریعے عدم برداشت کے موضوع کو اجاگر کیا گیا۔ اس کیمپ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے دو ہزار سے زائد طلباء وطالبات نے حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
فیس آف انٹرنیشنل آرٹ کیمپ کا یہ چوتھا مرحلہ تھا۔ اس سے پہلے پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ میں بھی اس کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا جب کہ منتظمین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیرستان میں بھی آرٹ کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا۔
تصویر: DW/A. Gran
بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں دو ہزار سے بھی زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے اور اپنی صلاحتیوں اور دلچسپیوں کے مطابق آرٹ کی ورکشاپس میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/A. Gran
ہنرکدہ کے چیرمین ڈاکٹر جمال شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں شورش کے دوران بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے، کیمپ میں فنون لطیفہ کے ورکشاپوں کے ذریعے ان کے ذہنوں سے منفی اثرات ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
تصویر: DW/A. Gran
کیمپ میں شریک طالبہ تارہ نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ اس کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا لیکن سوات میں حالات سازگار نہ ہونے کے باعث وہ کبھی بھی اپنے ٹیلنٹ کا اظہار نہ کر پائی تھی۔
تصویر: DW/A. Gran
فیس آف کیمپ سترہ نومبر سے لے کر 24 نومبر تک جاری رہا اور اس کے لیے افغانستان، عرب امارات اور ملک بھر سے نامور فن کار مدعو کیے گئے تھے، جنہوں نے ورکشاپوں میں شرکت کرنے والے طلباء و طالبات کو تربیت دی۔
تصویر: DW/A. Gran
بین الاقوامی فنون لطیفہ کیمپ میں دو ہزار سے بھی زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شورش زدہ سوات میں لوگوں کے ذہنوں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اس قسم کے پروگرام ہونے چاہیئں تاکہ بہتر معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے منفی اثرات کا خاتمہ ہو سکے ۔
تصویر: DW/A. Gran
8 تصاویر1 | 8
نیپلز کے اسٹیٹ پراسیکیوٹر جیوانی میلیلو نے بتایا، ''اس تاریخی لیکن چوری شدہ پورٹریٹ کی برآمدگی ایک بہت ہی پیچیدہ آپریشن تھا، خاص طور پر یہ طے کرنا کہ یہ پورٹریٹ شہر میں کہاں چھپایا گیا تھا۔‘‘
'دنیا کا مسیحا‘
جیوانی میلیلو نے صحافیوں کو بتایا، ''اس پینٹنگ کا مالک عجائب گھر ایک کلیسائی میوزیم ہے اور اسے مصوری کے اس تاریخی شاہکار کی چوری کا اس لیے علم نا ہو سکا تھا کہ جس کمرے میں یہ پینٹنگ رکھی گئی تھی، اسے گزشتہ تین ماہ کے دوران کھولا ہی نہیں گیا تھا۔‘‘
جیاکومو آلیبرانڈی کا بنایا ہوا یسوع مسیح کا یہ پورٹریٹ لیونارڈو ڈاونچی کے بنائے ہوئے اس پورٹریٹ کی ہو بہو نقل ہے، جسے 'سالواتور مُنڈی‘ یا 'دنیا کا مسیحا‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ یہ پورٹریٹ ڈاونچی کی جس پینٹنگ کی کاپی ہے، وہ 2017ء میں نیو یارک میں 450 ملین ڈالر یا 370 ملین یورو کے قیمت پر نیلام ہوئی تھی۔
م م / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)
جب جسم رنگوں میں بدل گئے
جنوبی کوریا میں ہونے والے باڈی پینٹنگ کے ایک مقابلے میں دنیا بھر سے آئے ہوئے آرٹسٹوں اور ماڈلز نے شرکت کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
سنور کے آئنہ تکتے ہوئے
جنوبی کوریا میں ہونے والے باڈی پینٹنگ فیسٹیول میں شریک ایک ماڈل پرفارمنس کے لیے تیار ہے۔ تاہم اسٹیج پر جانے سے قبل وہ ہرطرح سے مطمئن ہونا چاہتی ہے۔ اس فیسٹیول میں دس مختلف ممالک کے فن کاروں نے اپنے جوہر دکھائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
بیک اسٹیج
ڈائے گو کے دو روزہ ’بین الاقوامی باڈی پینٹنگ فیسٹیول‘ کے دوسرے اور آخری دن دو ماڈلز اسٹیج پر جانے کی تیاری میں ہیں۔ ان خواتین ماڈلز کے جسموں کو خوبصورت انداز میں رنگا گیا۔ یہ فیسٹیول چھبیس اور ستائیس اگست کو منعقد ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
مصروف آرٹسٹ
جاپانی فن کار آواسکی ماسا کاسو ایک ماڈل کے جسم پر نقش ونگار بنا رہے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر وہ اسپرے کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ ایک اور آرٹسٹ برش کی مدد سے جسم پر کی گئی پینٹنگ کے خطوط کو نکھار رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
ماڈل تیار
جاپانی آرٹسٹ آواسکی ماسا کاسو اس ماڈل کے جسم کو رنگ چکے ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی امریکی ماڈل نیوم میلن برگ کے بقول اس ایونٹ میں شرکت کی خاطر پہلی مرتبہ انہوں نے اپنے جسم پر پینٹنگ کرائی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
ایک منفرد انداز
کسی ماڈل کے جسم کو مکمل انداز میں رنگوں سے چھپانے میں چھ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔ اس آرٹ کو آج کل دنیا میں بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے، جس میں انسانی جسم ایک تصویری کہانی بیان کرتا نظر آتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
محنت طلب کام
جسم پر پینٹ کرنا ایک مہارت کا کام تو ہے ہی لیکن ماڈلز کو بھی کافی کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہاتھ سے کیے گئے پینٹ کی خاطر ماڈلز کو کئی گھنٹوں تک ساکت و جامد کھڑا بھی رہنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Jones
اپنے سائے کے ساتھ
’بین الاقوامی باڈی پینٹنگ فیسٹیول‘ میں ایک پرفارمنس کے دوران ایک ماڈل اطالوی آرٹسٹ ایمانوئل بوریلو کی کاری گری کی نمائش کر رہی ہیں۔ اس فیسٹیول کا پہلی مرتبہ انعقاد سن دو ہزار آٹھ میں کیا گیا تھا۔ اس فیسٹیول میں باڈی پینٹنگ کے مقابلے کے ساتھ ساتھ موسیقی کی محفلیں بھی سجتی ہیں اور شرکا کی دلچسپی کے لیے انٹرٹینمنٹ کے دیگر شوز منعقد کیے جاتے ہیں۔