ڈاکا باویریا کی جیولری شاپ میں، پولیس اہلکار برلن میں گرفتار
26 جنوری 2021
جنوبی جرمن صوبے باویریا کے چھوٹے سے شہر بامبرگ میں ایک جیولری شاپ میں ڈاکا ڈالنے کے الزام میں مشرقی شہر اور وفاقی دارالحکومت برلن کا ایک پولیس اہلکار گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈاکے کی رات ملزمان نے ایک گاڑی بھی چوری کی تھی۔
اشتہار
برلن پولیس کی طرف سے منگل چھبیس جنوری کے روز بتایا گیا کہ جنوبی صوبے باویریا کے شہر بامبرگ کی ایک جیولری شاپ پر ڈاکے کی واردات کا ارتکاب رواں ماہ کے وسط میں دو ملزمان نے کیا تھا۔ ان ملزمان نے رات کے وقت ایک گاڑی ایک جیولر کی دکان کے شو کیس سے ٹکرا دی تھی، جس سے شو کیس کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔
یہ ملزمان 77 ہزار کی آبادی والے شہر بامبرگ کی اس دکان سے ہزاروں یورو مالیت کے زیوارت چرا کر وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔ بعد میں بامبرگ کی پولیس نے جب تفتیش کی تو اس جرم کی کچھ کڑیاں برلن میں پولیس کے محکمے سے جا ملیں۔ اس پر مزید تفتیش کے بعد برلن پولیس کے ایک تیس سالہ اہلکار کو انیس جنوری کو گرفتار کر لیا گیا، جس کی برلن پولیس نے تصدیق آج منگل کے روز کی۔
انقلاب فرانس سے قبل کی ملکہ میری اینٹونیٹ کے ذاتی زیورات جنیوا کے مشہور نیلام گھر میں فروخت کیے جائیں گے۔ ان زیورات کو فرانسیسی ملکہ نے انقلاب کے بعد پیرس سے باہر منتقل کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
تاریخی زیورات
نیلام کیے جانے والے بیش قیمت زیورات میں موتیوں سے جڑے نیکلس، ہیرے اور ملکہ کے بالوں کی لٹ والی انگوٹھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو تقریباً دو صدیوں کے بعد جنیوا میں قائم ’سدے بیز‘ نیلام گھر میں فروخت کیا جائے گا۔ یہ زیورات فرانسیسی ملکہ کے زیراستعمال رہے تھے۔ سدے بیز کی ترجمان کے مطابق یہ انتہائی تاریخی نوادرات کی نیلامی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
میری اینٹونیٹ: آسٹریا سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی ملکہ
فرانس کی مشہور ملکہ میری اینٹونیٹ ویانا میں دو نومبر سن 1755 پیدا ہوئی تھیں۔ وہ آسٹریائی ملکہ ماریا تھریسا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ سن 1793ء میں انقلاب فرانس کے بعد انقلابی عدالت کے فیصلے کے تحت صرف اڑتیس برس کی ملکہ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور نعش ایک گمنام قبر میں پھینک دی گئی۔ اُن کی شادی فرانسیسی باشاہ لوئی اگسٹ سے ہوئی تھی۔
موتی اور ہیرے سے سجا ہار کا آویزہ
نیلامی کے لیے میری اینٹونیٹ کے گلے کا آویزہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں جڑا قدرتی موتی اٹھارہ ملی میٹر لمبا ہے۔ توقع ہے کہ اس کی نیلامی ایک سے دو ملین ڈالر کے درمیان ممکن ہے۔ اس موتی والے آویزے کو فرانسیسی ملکہ نے صرف ایک مرتبہ پہنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
شاہی زیورات کا عالمی دورہ
نیلامی کے لیے رکھے گئے شاہی زیورات میں ہیرے کا بروچ اور کانوں کے پہننے والی بالیاں بھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو نیلام کرنے سے قبل ہانگ کانگ، نیویارک، میونخ اور لندن سمیت دنیا کے کئی شہروں میں نمائش کی گئی تھی تا کہ خریدار نیلامی کے وقت اپنی بولی کا تعین کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
گلابی ہیرے اور بالوں کی چھوٹی سے لِٹ
ایک ایسی انگوٹھی بھی نیلام کے لیے موجود ہے، جس پر ملکہ میری اینٹونیٹ کے نام کے ابتدائی حروف ایم اے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں گلابی ہیرے جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی انگوٹھی میں ملکہ کے بالوں کی ایک لٹ بھی موجود ہے۔ اس وقت یہ تمام زیورات اطالوی شاہی خاندان بوربن پارما کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خاندانی زیورات کی واپسی
انقلاب فرانس کے بعد ملکہ میری اینٹونیٹ نے فرار کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش سے قبل اپنے زیورات ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر برسلز روانہ کر دیے تھے، جہاں سے یہ صندوق آسٹریائی بادشاہ کو پہنچا دیا گیا۔ ملکہ کے فرار کا منصوبہ ناکام ہو گیا لیکن اُن کی اکلوتی بیٹی تھریسا کو سن 1795 میں رہا کر دیا گیا اور جب وہ آسٹریا پہنچی تو لکڑی کا صندوق انہیں دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
شاہی تاج کے ہیرے
جنیوا کے سدے بیز کے نیلام گھر میں جو تاریخی اشیاء نیلامی کے لیے رکھی ہوئی ہیں، ان میں ملکہ میری اینٹونیٹ کے دوست اور شوہر کے بھائی چارلس دہم کے ملکیتی ہیرے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/S. Chung
7 تصاویر1 | 7
بامبرگ پولیس کے مطابق تفتیش کاروں کو اس جرم کے مشتبہ ملزمان تک پہنچنے میں مدد اس طرح ملی کہ دوران تفتیش مقامی پولیس کو شبہ ہو گیا تھا کہ ملزمان یا ان میں سے کم از کم کوئی ایک اتنا تجربہ کار تھا کہ وہ پولیس کی طرف سے تفتیش کے تمام طریقے جانتا تھا اور اس نے اپنے پیچھے تمام ممکنہ شواہد کو تلف کرنے کی کوشش کی تھی۔
برلن پولیس کے اس اہلکار اور مشتبہ ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کا اسی کا ہم عمر شریک ملزم بھی گرفتارکر لیا گیا۔ برلن پولیس کے ایک بیان کے مطابق ان دونوں ملزمان نے بامبرگ میں ڈکیتی کی رات ایک گاڑی بھی چوری کی تھی، جس کی مالیت تقریباﹰ اٹھارہ ہزار یورو تھی۔
بامبرگ پولیس نے ان دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور ان سے دوران حراست پوچھ گچھ جاری ہے۔ دوسرا ملزم شمالی جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کا رہنے والا ہے، جسے بامبرگ ہی میں اس کے فلیٹ سے گرفتار کیا گیا اور جس کے قبضے سے ڈکیتی کی واردات میں لوٹے گئے زیادہ تر زیورات بھی برآمد کر لیے گئے۔
عالمی منڈی میں سونے کی قیمت میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ حال ہی میں ایک اونس سونے کی قیمت کم ہو کر گزشتہ قریب ساڑھے پانچ برسوں کی نچلی ترین سطح پرپہنچ گئی۔ بھارت میں ہر سال ٹنوں کے اعتبار سے سونا خریدا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
زیورات میں خواتین کے لیے مقناطیسی کشش
ایک بھارتی خاتون سنگھار میز کے سامنے کھڑی زیور پہنے رہی ہے۔ طلائی زیورات میں جانے کیا کشش ہوتی ہے کہ انہیں دیکھتے ہی خاص طور پر خواتین کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ حال ہی میں سونے کی قیمتوں میں چار فیصد کی کمی کے سبب عالمی منڈی میں گولڈ کمپنیوں کو آٹھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ماہرین کے مطابق اس سے قبل 2010ء میں سونے کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images/Narinder Nanu
شادی اور سونے کے زیورات کی چمک دمک
ہندوؤں کی شادی کی رسوم میں دولہا اپنی دلہن کو سونے کے ہار پہناتا ہے۔ دو ہزار بارہ و تیرہ کے کے مالی سال کے دوران بھارت نے اس قیمتی دھات کو درآمد کرنے پر 54 ارب ڈالر خرچ کیے، جس کے غیر ممالک کے ساتھ تجارتی توازن اور کرنسی کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ شماریاتی اعتبار سے سونا ایک ’غیر ضروری برآمدی شَے‘ ہے۔
تصویر: imago/Sommer
سونے کی محبت میں گرفتار
بھارت میں لوگ سونے سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھارتی شہری روزانہ 2.3 ٹن یعنی ایک چھوٹے سے ہاتھی کے وزن کے برابر سونا خریدتے ہیں۔ بھارتی گھرانوں کی تقریباً نصف بچت اسی قیمتی دھات کی صورت میں ہوتی ہے۔
تصویر: RAVEENDRAN/AFP/Getty Images
صدیوں سے چلی آ رہی روایت
ہندوؤں کے ہاں یہ عقیدہ ہے کہ انسان بار بار جنم لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی روایات میں پُر تعیش دنیاوی ساز و سامان کو ہرگز کوئی ایسی بُری شَے خیال نہیں کیا جاتا کہ جسے انسان کو چھپانا چاہیے۔ ان کے خیال میں یہ چیزیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ پچھلے جنم میں انسان کے اعمال اچھے تھے۔ بھارتی شہری بائیس قیراط کے زیادہ خالص سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تصویر: SAM PANTHAKY/AFP/Getty Images
مذہب اور سونا
صنعتی تنظیم ورلڈ گولڈ کونسل کے اندازوں کے مطابق بھارت کے مندروں میں چڑھاوے کے طور پر عطیہ کیے جانے والے سونے کی مقدار بڑھ کر دو ہزار ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ جنوبی بھارتی وِشنو مندر پدمانابھاسوامی کو سب سے زیادہ دولت مند خیال کیا جاتا ہے۔ 2011ء میں اس مندر کے زیر زمین چیمبرز سے تقریباً بیس ارب ڈالر کے برابر مالیت کا سونا اور ہیرے جواہرات دریافت ہوئے تھے۔
تصویر: STRDEL/AFP/Getty Images
گولڈن بوائے ٹنڈولکر
مایہ ناز بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر سونے کا وہ سکہ دکھا رہے ہیں، جن پر اُن کی تصویر کندہ ہے۔ مئی 2013ء میں ایک مذہبی تہوار کے موقع پر اس طرح کے ایک لاکھ سکے جاری کیے گئے تھے۔ بڑے ہندو تہواروں سے پہلے ہمیشہ زیادہ بڑی مقدار میں سونا خریدا اور درآمد کیا جاتا ہے۔
تصویر: INDRANIL MUKHERJEE/AFP/Getty Images
سونے کا دیوتا گنیش
بھارت کے مرکزی بینک نے چند ایک مندروں سے اپنے سونے کے ذخائر ظاہر کرنے کی درخواست کی ہے، جس پر مندروں کی جانب سے کوئی زیادہ جوش و خروش ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر ان ذخائر کا کچھ حصہ ملکی منڈی میں فراہم کر دیا جائے تو سونے کی ان درآمدات میں کمی ہو جائے گی، جو بھارتی کے منفی تجارتی توازن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
سونے کی مارکیٹ کو کنٹرول کرنا مشکل
نئی دہلی حکومت نے سال رواں کے وسط میں طلائی زیورات کی درآمد پر ٹیکس بڑھا دیا تھا، جس سے حکومت کو تجارتی خسارے میں نمایاں کمی کرنے میں مدد ملی ہے۔ تاہم بھارتی شہریوں کی نظر میں سونے کی کشش اتنی زیادہ ہے کہ ماہرین طویل المدتی بنیادوں پر سونے کی درآمدات میں کمی کی توقع نہیں کر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
8 تصاویر1 | 8
'پوری پولیس فورس پر شبہ نا کریں‘
اس واقعے کے حوالے سے جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین تنظیم جی ڈی پی نے آج اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''اس جرم کو پولیس اہلکاروں کے خلاف عمومی شک و شبے کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔ پولیس اہلکاروں کا کام قانون اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں یا اپنے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔‘‘
جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین کے اس بیان کے مطابق، ’’ایسے مجرموں کو اس لیے سزا ملنا چاہیے کہ وہ جرائم کا ارتکاب کرنے کے علاوہ پولیس کی بدنامی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اس لیے کہ جرم کا ارتکاب کوئی عام شہری کرے یا کوئی پولیس اہلکار، قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہوتا اور ہر کسی کو جواب دہ بنانے سے ہی قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘
م م / ا ا (ڈی پی اے، بی بی)
سیندک منصوبہ: سونے اور چاندی کے وسیع ذخائر
بلوچستان کے دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت سن 1901 میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 میں شروع کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے ’سیندک میٹل لمیٹڈ‘ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
حکومت پاکستان نے منصوبے پر کام کے لیے پہلا معاہدہ چینی کمپنی ’چائنا میٹالارجیکل کنسٹرکشن کمپنی‘ (ایم سی سی ) کے ساتھ کیا۔ ابتدا میں آمدنی کا 50 فیصد حصہ چینی کمپنی جب کہ 50 فیصد حصہ حکومت پاکستان کو ملنے کا معاہدہ طے کیا گیا تھا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت اپنی آمدنی سے دو فیصد بلوچستان کو فراہم کرتی تھی تاہم بعد میں یہ حصہ بڑھا کر 30 فیصد کیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کاپر اینڈ گولڈ پروجیکٹ میں ملازمین کی کل تعداد اٹھارہ سو کے قریب ہے جن میں چودہ سو کا تعلق پاکستان جب کہ چار سو ملازمین کا تعلق چین سے ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک منصوبے پر ایم سی سی نے اکتوبر 1991 میں کام شروع کیا۔ سن 1996 میں بعض وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر کام روک دیا گیا اور پروجیکٹ کے تمام ملازمین کو ’گولڈن ہینڈ شیک‘ دے کرفارغ کر دیا گیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سن 2000 میں پاکستان کی مرکزی حکومت نے سیندک منصوبے کو لیز پر دینے کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ چینی کمپنی ایم سی سی نے ٹینڈر جیت کر مئی 2001 سے دس سالہ منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے علاقے سے اب تک لاکھوں ٹن سونا، تانبا ، چاندی اور کاپر نکالا جا چکا ہے۔ نکالے گئے ان معدنیات میں سب سے زیادہ مقدار کاپر کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیندک سے مائننگ کے دوران اب تک دس لاکھ ٹن سے زائد ذخائز نکالے جا چکے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
چینی کمپنی ایم سی سی نے دفتری کام اور پیداواری امور سرانجام دینے کے لیے ’ایم سی سی ریسورس ڈیویلمنٹ کمپنی‘کے نام سے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی ہے۔ اس منصوبے کے معاہدے کی معیاد 2021ء تک ختم ہو رہی ہے اور چینی کمپنی علاقے میں مزید مائننگ کی بھی خواہش مند ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں مائننگ کے دوران ڈمپر اسی سے پچانوے ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس زخیرہ کرتے ہیں۔ بعد میں سیمولیٹر سے خام مال ریت بن کر دوسرے سیکشن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ پلانٹ میں خام مال مختلف رولرز سے گزر کر پانی اور کیمیکلز کے ذریعے پراسس کیا جاتا ہے اور بعد میں اس میٹیرئیل سے بھٹی میں بلاک تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک کے مغربی کان میں کھدائی مکمل ہوچکی ہے تاہم اس وقت مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جا رہا ہے۔ پروجیکٹ میں مائننگ کا یہ کام چوبیس گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کے بقول خام مال سے ہر کاسٹنگ میں چوالیس سے پچپن کے قریب بلاکس تیار کیے جاتے ہیں جن کا مجموعی وزن سات کلوگرام سے زائد ہوتا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک میں سونے تانبے اور چاندی کے تین بڑے ذخائر کی دریافت ہوئی۔ سیندک کی تہہ میں تانبے کی کل مقدارچار سو بارہ ملین ٹن ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انیس سال کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور یہ معاہدہ سن 2021 میں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سیندک پروجیکٹ سے پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے۔ منصوبے میں ملازمین کی کم از کم تنخواہ اسی سے سو ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ پندرہ سو ڈالر کے قریب ہے۔