ڈاکو بینک کی دیوار کاٹ کر ڈھائی سو سیف ڈیپازٹ باکس لے اڑے
7 جون 2022
ایرانی دارالحکومت تہران میں ڈاکوؤں کا ایک گروہ ایک ملحقہ عمارت کے راستے ایک بینک کی دیوار کاٹ کر ڈھائی سو سیف ڈیپازٹ باکس لے اڑا۔ بہت سے ایرانی بینکوں کے سیف ڈیپازٹ یا لاکر رومز ان بینکوں کے تہہ خانوں میں ہوتے ہیں۔
اشتہار
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے میں ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے تہران میں ایک بینک کے سیف ڈیپازٹ روم کو لوٹنے کے لیے اس بینک کی بلڈنگ سے جڑی ایک عمارت کو استعمال کیا۔ نامعلوم مجرموں کے گروہ نے اس جرم کا ارتکاب اس تین روزہ تعطیل کے دوران کیا، جس دوران بینک بند تھا۔
نقصان کی مجموعی مالیت نہیں بتائی گئی
مجرموں نے ملحقہ عمارت سے اس بینک کی دیوار کا ایک حصہ کاٹ کر اس کمرے تک رسائی حاصل کی، جس میں سیف ڈیپازٹ باکس موجود تھے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ڈاکو 250 سیف ڈیپازٹ باکس اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے جس بینک کو لوٹا، وہ سرکاری ملکیت میں کام کرنے والے بینک ملی ایران کی ایک بڑی شاخ تھی۔
سرکاری ٹیلی وژن نے اپنی رپورٹوں میں یہ نہیں بتایا کہ چوری کیے گئے سیف ڈیپازٹ باکسز میں موجود قیمتی اشیاء کس نوعیت کی تھیں یا ان کی مجموعی مالیت کیا تھی۔ بینک ملی ایران نے اس واقعے کے بعد پیر چھ جون کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس ڈکیتی کی وجہ سے صرف 'محدود نقصان‘ ہی ہوا ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔
تصویر: tejaratnews
12 تصاویر1 | 12
بینک مینیجر نے الارم نظر انداز کر دیا
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے مہر نیوز ایجنسی نے بتایا کہ جب ڈاکوؤں نے بینک کی دیوار کاٹی تو اس دوران خود کار حفاظتی الارم بجنا شروع ہو گیا تھا، جس کی اس بینک کے مینیجر کو وارننگ بھی مل گئی تھی۔ تاہم برانچ مینیجر نے یہ الارم اس لیے نظر انداز کر دیا کہ ماضی میں اس الارم کے غلطی سے بجنے کے کئی واقعات بھی پیش آ چکے تھے۔
مہر نیوز ایجنسی کے مطابق اس بینک کا الارم سسٹم اس طرح نصب نہیں کیا گیا تھا کہ خطرے کی صورت میں مقامی پولیس کو بھی خود کار طریقے سے اطلاع مل جاتی۔
تہران کے جس بینک میں یہ ڈکیتی ہوئی، وہ شہر کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک پر واقع ہے اور تہران یونیورسٹی اور ایک مقامی پولیس اسٹیشن سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔
ایران میں بینک لوٹنے کے واقعات بہت ہی شاذ و نادر پیش آتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد پولیس کئی مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں بینک کے عملے کے کچھ ارکان بھی شامل ہیں۔
م م / ع ا (اے پی)
سرد جنگ میں اربوں کے کرنسی نوٹوں کا محافظ جرمن تہ خانہ
وفاقی جرمن بینک نے سرد جنگ کے دور میں پندرہ ارب مارک کے متبادل کرنسی نوٹ اپنے ایک ’خفیہ‘ تہ خانے میں رکھے ہوئے تھے، جو آج کل ایک نجی میوزیم ہے۔ اٹھارہ مارچ 2016ء سے اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
زمین کے نیچے خفیہ دنیا
جب ساٹھ کے عشرے میں سرد جنگ اپنے نقطہٴ عروج پر پہنچی تو وفاقی جرمن بینک نے ہنگامی کرنسی محفوظ رکھنے کے لیے تہ خانوں کا ایک پورا نظام تعمیر کیا۔ اس منصوبے کو خفیہ اور دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جانا مقصود تھا۔ دریائے موزل کے کنارے ایک رہائشی علاقے میں نو ہزار مربع میٹر رقبے پر تین ہزار کیوبک میٹر کنکریٹ کی مدد سے تین سو میٹر لمبی راہداریاں اور پندرہ سو مربع میٹر کا تہ خانہ بنایا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تہ خانے کا ’انتظام‘
مجوزہ رقبے پر ایک میڈیکل ڈاکٹر کی سابقہ رہائش کو بینک کے ملازمین کے تربیتی مرکز کی شکل دے دی گئی۔ اس ’تربیتی مرکز‘ کے معدودے چند ملازمین میں سے صرف سربراہ کو پتہ ہوتا تھا کہ اس تہ خانے میں رکھا کیا ہے۔ یہ کمرہ بھی اسی تہ خانے میں ہے اور قریب ہی بیوشل کے مقام پر واقع ایٹم بموں کے اڈے پر کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے ہنگامی دفتر کا کردار ادا کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
تابکاری کا خوف
کسی جوہری حملے کی صورت میں تہ خانے کے اندر موجود عملے کے لیے یہ انتظام موجود تھا کہ وہ خصوصی لباس پہن کر اور گیس ماسک لگا کر خود کو تابکاری شعاعوں کے اثرات سے بچا سکتے تھے۔ ایک کمرے میں پانی کے ذریعے آلودگی ختم کرنے کا انتظام تھا۔ اس کے علاوہ ایک آلہ تھا، جس کی مدد سے تہ خانے میں موجود عملے پر تابکاری کے اثرات کو ماپا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
175 افراد کے لیے رہائش
یہ تہ خانہ محض ہنگامی کرنسی اور اُس کے محافظوں کی خفیہ پناہ گاہ ہی نہیں تھا۔ کسی جوہری حملے کی صورت میں اسے 175 انسانوں کو بھی پناہ فراہم کرنا تھی۔ تہ خانے میں صحت و صفائی کی جو سہولتیں بنائی گئی تھیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارا انتظام صرف مردوں کے لیے تھا، عورتوں کے لیے نہیں۔ اندر موجود اَشیائے ضرورت کے ذخائر بھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتوں کے لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ
اس جگہ سے تہ خانے کا عملہ باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے اُستوار کر سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی فون کی چار اور ٹیلی پرنٹر کی دو لائنوں کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اربوں مالیت کی کرنسی تک جانے کا راستہ
ٹنوں وزنی فولادی دروازوں کے پیچھے پڑے کرنسی نوٹوں تک محض بینک کے انسپکٹرز کی رسائی تھی۔ وہی ان دروازوں کو کھولنے کے کوڈ سے واقف تھے۔ جو چند ایک چابیاں تھیں، وہ بھی تہ خانے کے اندر نہیں رکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود ان دروازوں کو اکثر کھولا جاتا تھا، وہاں پڑی رقم گننے کے لیے۔ رُبع صدی کے دوران غالباً ایک بھی کرنسی نوٹ ادھر سے اُدھر نہیں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
پندرہ ارب مارک کی متبادل کرنسی
کسی دشمن قوت کی جانب سے بڑے پیمانے پر ڈوئچ مارک کے جعلی نوٹ گردش میں لانے کی صورت میں ان نوٹوں کو متبادل کرنسی بننا تھا، گو اس کی کبھی نوبت نہ آئی۔ 1988ء میں یعنی سرد جنگ کے خاتمے سے بھی پہلے یہ ڈر جاتا رہا اور یہ کرنسی نوٹ تلف کر دیے گئے۔ تاریخی دستاویز کے طور پر ان میں سے محض چند ایک کرنسی نوٹ اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
اب ایک نجی عجائب گھر
اب اس تہ خانے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ عجائب گھر ایک جرمن جوڑے نے قائم کیا ہے۔ پیٹرا اور اُن کے شوہر مانفریڈ روئٹر ویسے تو ایک قریبی قصبے میں ایک بس کمپنی چلاتے ہیں۔ 2014ء میں اُنہوں نے یہ تہ خانہ اور اس سے جڑا احاطہ خرید لیا۔ یہ جرمن جوڑا بینکاروں کے سابقہ ’خفیہ تربیتی مرکز‘ کو ایک ہوٹل کی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Frey
سیاحوں کے لیے باعث کشش
آج کل یہ تہ خانہ تحفظ کے دائرے میں آنے والی قومی یادگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ سیاح دور و نزدیک سے کوخم کے مشہور نیو گوتھک قلعے اور ازمنہٴ وُسطیٰ کے قدیم کوخم جیسے دیگر قابل دید مقامات کے ساتھ ساتھ اس تہ خانے کو بھی دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ گروپوں کے لیے گائیڈڈ ٹورز کا انتظام تو پہلے سے ہی موجود ہے جبکہ اس سال ایسٹر کی تعطیلات سے لوگ انفرادی طور پر بھی گائیڈ کی مدد سے اس تہ خانے کی سیر کر سکتے ہیں۔