ڈاکٹر قدیر کا پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ، رائے عامہ منقسم
عبدالستار، اسلام آباد
24 دسمبر 2019
پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے خلاف کئی برسوں سے عائد پابندیوں کے خاتمے کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ان پابندیوں کے حوالے سے پاکستان میں رائے عامہ تقسیم کا شکار ہے۔
اشتہار
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان پر لگائے گئے الزامات سنگین ہیں، لہٰذا انہیں 'لو پروفائل‘ میں رہنا چاہیے۔ مگر چند مبصرین کی رائے میں ڈاکٹر اے کیو خان 'محسن پاکستان‘ ہیں اور انہیں ہر طرح کی آزادی ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس بات کے حق میں ہے کہ انہیں ہر طرح کی ذاتی آزادی میسر ہونا چاہیے۔ تاہم کئی شہری اس رائے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ علمی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔
مختصراﹰ اے کیو خان کے نام سے جانے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں قومی ٹی وی پر اعتراف کیا تھا کہ وہ جوہری پھیلاؤ میں ملوث رہے تھے۔ اس کے بعد اس دور کی حکومت نے ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی تھیں، جو آج تک برقرار ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک درخواست کے مطابق ڈاکٹر خان کی نقل و حرکت پر سخت پابندی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہی رہائشی علاقے میں رہنے والی اپنی بیٹی اور ان کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے۔ اس کے علاوہ وہ کئی برسوں سے کسی سماجی تقریب میں بھی شرکت نہیں کر پا رہے۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ ان پر عائد یہ پابندیاں اٹھائی جائیں۔
پاکستان میں کئی حلقے یہ خیال کرتے ہیں کہ اے کیو خان کا یہ مطالبہ جائز ہے۔ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے مرکزی رہنما مولانا جلال الدین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کا یہ مطالبہ بالکل آئینی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ محسن پاکستان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط کیا۔ تو انہیں بالکل اجازت ہونا چاہیے کہ وہ جہاں چاہیں جا سکیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کو مکمل سکیورٹی فراہم کرے۔ ان پر عائد پابندیاں بالکل غیر آئینی ہیں۔ جب صدر اور وزیر اعظم بحفاظت ہر جگہ جا سکتے ہیں، تو ڈاکٹر قدیر خان کیوں نہیں؟‘‘
چند حلقوں کا خیال ہے کہ اے کیو خان کے آزادانہ گھومنے پھرنے یا میڈیا سے بات چیت کرنے سے پاکستان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں اور ملک نئی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر نجم الدین کا کہنا ہے کہ قدیر خان ایک قوم پرست، محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔"
ڈاکٹر نجم الدین نے کہا، ''میرے خیال میں وہ ایک عقل مند آدمی ہیں اور پاکستان کے بہت بڑے خیر خواہ بھی۔ اگر وہ کسی بھی عوامی فورم پر جا تے ہیں یا مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں، تو وہ ہمیشہ پاکستان کا دفاع ہی کریں گے۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں کر سکتے، جس سے ملک کا نقصان پہنچ سکتا ہو۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نجم الدین نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ان پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، لیکن ''وہ مغربی میڈیا میں اپنا بھر پور دفاع کر سکتے ہیں کیونکہ جوہری پھیلاؤ کے لیے کسی ایک شخص کو ذمےدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تو ایک پورے بین الاقوامی نیٹ ورک کا کام ہے۔‘‘
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
تاہم دیگر ناقدین کے خیال میں پاکستان پہلے ہی مشکل میں ہے اور اے کیوخان کے معاملے کی وجہ سے پاکستان کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے۔ ایسے حلقوں کے مطابق اب اگر ڈاکٹر قدیر خان پھر منظر عام پر آئے، تو ان کے خلاف لگائے گئے الزامات بھی دوبارہ منظر عام پر آئیں گے۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اے کیو خان کو 'لو پروفائل‘ میں رہنا چاہیے، ''دنیا ایسے کسی بندے کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جس پر شمالی کوریا، لیبیا اور ایران کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام ہو۔ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ایسا کیا تھا۔ ان کو ان کے ملک نے بچایا تھا، کیونکہ لوگ انہیں ہیرو سمجھتے تھے۔ اب اگر وہ ہر طرف گھومیں پھریں گے، تو یہ ان کی سکیورٹی کے لیے بھی بہتر نہیں ہوگا اور ان کے منظر عام میں آنے سے جوہری پھیلاؤ کو معاملہ پھر سے اٹھے گا۔ یہ پاکستان کے لیے بھی بہتر نہیں ہو گا۔ لہٰذا انہیں لو پروفائل میں ہی رہنا چاہیے۔‘‘
نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے سابق ترجمان جان بلیدی بھی جنرل امجد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان پر یہ الزامات اس وقت لگے، جب دہشت گردی کے خلاف جنگ عروج پر تھی اور دنیا کو خطرہ تھا کہ جوہری ہتھیار کہیں دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ انہوں خود اپنے جوہری پھیلاؤ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تو اب اگر ان کو ہر جگہ آنے جانے کی کھلی اجازت مل گئی، تو اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہی ہو گا۔‘‘
چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
تصویر: DW/F. Warwick
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
تصویر: DW/F. Warwick
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
تصویر: DW/F. Warwick
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
تصویر: DW/F. Warwick
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
تصویر: DW/F. Warwick
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘