ڈبلن سٹی کونسل نے آنگ سان سوچی کو دیا اعزاز واپس لے لیا
صائمہ حیدر
14 دسمبر 2017
ڈبلن میں کونسلروں نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو دیا گیا ایک شہری اعزاز واپس لے لیا ہے۔ یہ اعزاز سوچی کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کی روک تھام نہ کرنے پر منسوخ کیا گیا۔
اشتہار
آئرش میڈیا کے مطابق میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کو دیا گیا ’ فریڈم آف دی سٹی آف ڈبلن ایوارڈ ‘ احتجاجاﹰ واپس لینے کے لیے کونسلروں کی اکثریت نے رائے شماری میں حصہ لیا۔ ایوارڈ کی منسوخی کے حق میں 59 جبکہ اس کے خلاف دو ووٹ ڈالے گئے۔
ڈبلن سٹی کونسل کا یہ فیصلہ میانمار سے قریب چھ لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ میانمار کی فوج نے رواں برس اگست میں راکھین ریاست میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ میانمار کی ریاست راکھین سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کے مطابق میانمار کی فوج اُن کے خلاف قتل، جنسی زیادتی اور املاک کو آگ لگانے جیسے مظالم کی مرتکب ہوئی ہے۔
میانمار میں اس حالیہ بحران کی وجہ سے نوبل امن انعام یافتہ سوچی کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بالخصوص اس بحران سے درست طور پر نہ نمٹنے پر کئی مبصرین کہہ چکے ہیں کہ ان سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے۔
روہنگیا مسلمانوں کے حق میں عالمی مظاہرے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بے پناہ مبینہ مظالم کے خلاف دنیا کے کئی ممالک میں ہونے والے مظاہروں کے شرکاء نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Abd Halim
پاکستان، بینر جلا دیے
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں روہنگیا اقلیت کے حق میں کیے گئے احتجاجی مظاہرے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی تصویر والے بینرز جلائے گئے۔ یہ مظاہرہ حیدرآباد کے باسیوں اور شہر کی ایک فلاحی تنظیم کے ارکان نے کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
جکارتہ میں احتجاج
گزشتہ ہفتے چھ ستمبر کو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں میانمار کی سفارت خانے کے قریب ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ انڈونیشیا کے مسلمان مظاہرین نے میانمار میں روہنگیا اقلیت کے ساتھ ہونے والے تشدد کو فوری طور پر بند کیے جانے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Getty Images/B.Ismoyo
ایمبیسی کے بالکل قریب
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جکارتہ میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شامل افراد میانمار سفارت خانے کے بالکل قریب اس کے ارد گرد لگی خار دار باڑھ تک پہنچ گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B. Ismoyo
روس میں مظاہرے
روسی شہر گروزنی کے احمد کادیروف اسکوائر میں روسی مسلمانوں نے اپنے ہم مذہب روہنگیا کے حق میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس تصویر میں مظاہرین پوسٹرز اٹھائے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہے،’’ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی بند کی جائے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Z.Bairakov
کادیروف اسکوائر
روس کے شہر گروزنی میں مظاہرین کی ایک بڑی تعداد میانمار میں روہنگیا اقلیت کے ساتھ برتے جانے والے مبینہ امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق میانمار میں جاری تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ممکنہ طور پر ایک ہزار سے زائد ہو سکتی ہے، جس میں بڑی تعداد روہنگیا مسلمانوں کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Z.Bairakov
روہنگیا کے حق میں دعائیں
روس کے دارالحکومت ماسکو میں گزشتہ ہفتے سینکڑوں مسلمانوں نے میانمار کی فورسز اور بدھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس تصویر میں ماسکو میں قائم میانمار کے سفارت خانے کے باہر یہ مظاہرین نماز پڑھ کر روہنگیا کے حق میں دائیں مانگ رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Maximov
مذمتی تقاریر
ماسکو میں تین ستمبر کو ہونے والے مظاہرے میں شامل ایک شخص کو میانمار کی ریاست راکھین میں مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف مذمتی تقریر کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
بھارت کے شہر نئی دہلی میں گزشتہ ہفتے پانچ ستمبر کو روہنگیا اقلیت کے ساتھ یکجہتی کے طور پر انڈین پارلیمنٹ کے سامنے ایک مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں سے ایک پر تحریر تھا کہ عالمی میڈیا کو راکھین کی ریاست میں جانے کی اجازت دی جائے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Swarup
جرمنی میں بھی مظاہرہ
ایسا ہی ایک احتجاج جرمن دارالحکومت برلن میں بھی کیا گیا۔ مظاہرین نے برلن میں میانمار کے سفارت خانے کے سامنے کھڑے ہو کر بینرز بلند کر رکھے تھے۔ تصویر میں ایک بینر پر لکھا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/C. Karadag
9 تصاویر1 | 9
آئرلینڈ کے روزنامے، ’آئرش انڈیپنڈنٹ‘ کے مطابق کونسلر سیرین پیری نے کہا،’’روہنگیا افراد پر روزانہ کا تشدد جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر اس ایوارڈ کے واپس لیے جانے سے میانمار کی حکومت پر کچھ دباؤ پڑتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
ایک ماہ قبل موسیقار بوب گیلڈوف نے ڈبلن سٹی ہال میں اپنا فریڈم ایوارڈ سوچی کے خلاف احتجاج کے طور پر واپس کردیا تھا۔ گزشتہ ماہ روہنگيا مسلم اقليت کے خلاف مبينہ مظالم کی روک تھام کے ليے کوئی خاص اقدامات نہ کرنے پر برطانيہ کی آکسفورڈ يونيورسٹی نے بھی آنگ سان سوچی سے ’فريڈم آف دا سٹی‘ نامی ايوارڈ واپس لے ليا تھا۔
آنگ سان سوچی ستر برس کی ہو گئیں
میانمار میں حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی ستر برس کی ہو گئی ہیں۔ ڈی ڈبیلو نے اس موقع پر سوچی کے سیاسی سفر کو تصاویر کی شکل میں انہیں خراج عقیدت کے طور پر پیش کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نوآبادیاتی دور میں پیدائش
آنگ سان سوچی انیس جون 1945ء کو رنگون میں پیدا ہوئی تھیں۔ برطانوی نو آبادیاتی دور میں رنگون برما کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ وہ برما کے ایک قومی ہیرو آنگ سانگ کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد برما کی آزادی دیکھ نہیں سکے تھے، 1947ء میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ تصویر آنگ سانگ پر قاتلانہ حملے سے تھوڑی دیر پہلے لی گئی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
سیاست کی ابتدا
آنگ سان سوچی بھارت میں پروان چڑھیں اور انہوں نے اعلٰی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ ان کے شوہر اور دونوں بیٹے برطانوی شہری ہیں۔ 1988ء میں میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف چلنے والی پرتشدد تحریک کے دوران وہ وطن واپس پہنچیں۔ 26 اگست 1988ء کو سوچی نے اپنے پہلے خطاب میں جمہوریت کی بات کی۔
تصویر: AFP/Getty Images
انتخابی نتائج نظر انداز
امن و امان کی ریاستی کونسل نے 1990ء میں میانمار میں انتخابات کرانے کی اجازت دی۔ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی ’این ایل ڈی‘ اسی فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی لیکن فوجی حکومت نے ان نتائج کو بالکل نظر انداز کر دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Sato
بار بار نظر بندی
1989ء میں انتخابات سے قبل آنگ سان سوچی کو پہلی مرتبہ نظر بند کیا گیا۔ انہیں کئی مرتبہ یہ سزا دی گئی اور 2010ء تک وہ تقریباً 15 برس نظر بندی میں گزار چکی تھیں۔ فوجی حکومت نے ان کی نقل و حرکت تو محدود کر دی لیکن وہ ان کی کرشماتی شخصیت کے جادو کو روک نہ سکی۔
تصویر: picture-alliance/epa/N. Chan Naing
امن کا نوبل انعام
آنگ سان سوچی کو 1991ء میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کے عوض امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ فوجی حکومت انہیں میانمار میں دوبارہ داخل نہیں ہونے دے گی، اس لیے ان کے بیٹے کم نے اوسلو میں یہ ایوارڈ وصول کیا۔
تصویر: AP
رہائی کا مطالبے
نظر بندی کے دوران آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کے کارکن اور دنیا بھر میں ان کے حامی سیاستدان ان کی رہائی کے مطالبے کرتے رہے۔ نوبل انعام کے علاوہ انہیں مغربی اقوام کی جانب سے متعدد دیگر ایوارڈ بھی دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
نظر بندی کا خاتمہ
13 نومبر2010ء کو آنگ سان سوچی کی نظر بندی مکمل طور پر ختم کر دی گئی۔ نظر بندی کا خاتمہ سوچی اور فوجی حکومت کے مابین ان مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوا، جو 2007ء سے جاری تھے۔ فوجی حکومت بین الاوقامی سطح پر اپنے تنہائی کو ختم کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: picture alliance/epa/N. C. Naing
رکن اسمبلی
2012ء میں آنگ سان سوچی پہلی مرتبہ پارلیمان پہنچی۔ ان کی جماعت این ڈی ایل نے ضمنی انتخابات میں 45 میں سے 43 نشستین حاصل کی تھیں۔ 1990ء کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے، جن میں اس جماعت کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔ 2015ء کے اواخر میں میانمار میں دوبارہ عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AP
نوبل انعام کے بیس سال بعد اوسلو میں
جولائی 2012ء میں آنگ سان سوچی نے اوسلو جا کر بیس سال بعد اپنا امن کو نوبل انعام وصول کیا۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ اس ایوارڈ نے جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں میری لہمیت بڑھائی تھی۔‘‘ ساتھ ہی سوچی نے عالمی برادری نے میانمار میں جاری اصلاحات میں تعاون کی درخواست بھی کی۔
تصویر: Reuters
کسی امریکی صدر کا پہلا دورہ
2012ء کے آخر میں امریکی صدر باراک اوباما نے میانمار کا دورہ کیا۔ اس دوران اوباما نے آنگ سان سوچی سے اسی گھر میں ملاقات کی، جس میں وہ کئی برسوں تک نظر بند رہی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
برلن میں اعزاز
2014ء میں آنگ سان سوچی نے جرمنی کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس موقع پر برلن میں جرمن صدر یوآخم گاؤک نے سوچی سے ملاقات کی اور انسانی حقوق اور اس دوران جمہوریت کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ولی برانڈ ایوارڈ بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
میانمار کا مستقبل
آنگ سان سوچی اگلے انتخابات کے بعد ملکی صدر نہیں بن سکتیں۔ میانمار کے آئین کے مطابق کوئی بھی سیاستدان، جس کے بچے یا شوہر غیر ملکی شہریت رکھتے ہوں، اس منصب پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے قوی امید ہے کہ 2015ء کے انتخابات کے بعد سوچی کو کوئی اور اہم ترین منصب دیا جائے گا۔