اچانک انہوں نے ڈبل شاہ کا ذکر کیا، جو میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے ایک دفعہ پھر ڈبل شاہ کی بات کی تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کسی زندہ سلامت شخصیت کو ڈبل شاہ قرار دے رہے ہیں۔ آج کل ڈبل گیم کرنے والے کئی کردار اقتدار کے ایوانوں میں سرگرم ہیں اور اسی لیے ہمارے کچھ دوستوں کو بار بار ڈبل شاہ یاد آ جاتا ہے۔
اگر کسی کو ڈبل شاہ بھول چکا ہے تو یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ اس کا اصل نام سید سبط الحسن شاہ تھا۔ وہ وزیر آباد کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا اور بی ایس سی کرنے کے بعد ایک اسکول میں ٹیچر بن گیا۔ سن 2004ء میں وہ سرکاری ملازمت سے چھٹی لے کر دبئی گیا اور چند ماہ وہاں نوکری کی۔ چھ ماہ بعد وہ پاکستان واپس آ گیا اور اس نے اپنے ایک ہمسائے سے کہا کہ اگر وہ کاروبار کے لیے اسے کچھ رقم دے تو وہ دو ہفتے میں یہ رقم ڈبل کر کے اسے لوٹا دے گا۔ ہمسائے نے اسے یہ رقم دے دی، جو سید سبط الحسن شاہ نے اسے ڈبل کر کے دو ہفتے میں لوٹا دی۔ پھر دو مزید محلے داروں نے اسے رقم دی۔ یہ رقم بھی ڈبل کر کے لوٹا دی گئی اور یوں سید سبط الحسن شاہ اپنے محلے میں ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔
کچھ ہی عرصے میں سینکڑوں ہزاروں لوگ اس کے پاس آنے لگے۔ وہ ایک آدمی سے رقم لے کر دوسرے کو دے دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے دو ہفتے کی بجائے دو ماہ میں رقم لوٹانی شروع کی۔ کسی کو ڈبل منافع مل جاتا اور کسی کو نہیں ملتا تھا۔ سن 2007 میں ایک صحافی نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا، جس کے بعد نیب نے اسے گرفتار کر لیا۔ پتا چلا کہ اس نے صرف ڈیڑھ دو سال میں گجرانوالہ، وزیر آباد، سمبڑیال، سیالکوٹ اور آس پاس کے علاقوں سے سات ارب روپے اکٹھے کر لیے تھے اور ہزاروں افراد کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیا گیا۔ گرفتاری کے بعد بھی بہت سے لوگ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔
کچھ لوگوں نے سڑکوں پر آکر اس کے حق میں مظاہرے کیے لیکن آخر کار اسے عدالت سے سزا ہو گئی۔ سات سال سے زائد عرصے جیل میں گزارنے کے بعد وہ رہا ہوا اور دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوا۔ ڈبل شاہ نے پاکستانیوں کے ساتھ وہی کیا، جو بہت سال پہلے امریکا میں ایک اطالوی نژاد شہری چارلس پونزی نے امریکیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اسی لیے کاروبار کے نام پر لوگوں کو ان کا سرمایہ ڈبل کر کے بے وقوف بنانے والی اسکمیوں کو پونزی اسکیم بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں چارلس پونزی کو تو کوئی نہیں جانتا لیکن ڈبل شاہ فراڈ، دھوکے اور جھوٹ کا استعارہ بن چکا ہے۔
پچھلے دنوں آئی ایم ایف کے دباؤ پر پاکستان میں پٹرول اور بجلی سمیت کئی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو عام پاکستانیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ انہیں ایسا لگا کہ مہنگائی کے طوفان میں ان کے کچن کے اور روزمرہ اخراجات ڈبل ہو گئے ہیں اور یہ سب ایک ایسے شخص کے دور حکومت میں ہو رہا ہے، جو عوام کے سامنے سینے پر ہاتھ مار کر کہتا تھا کہ میں خودکُشی کر لوں گا لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کروں گا۔
ان کے دور میں مہنگائی ڈبل ہو چکی ہے اور بہت سے لوگوں کو ڈبل شاہ یاد آنے لگا ہے۔ ایک ماہر معاشیات مجھے یاد دلا رہے تھے کہ عمران خان تو کہتے تھے کہ وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کے سارے قرضے اتار دیں گے لیکن ان صاحب کے دور میں تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی ڈبل ہو چکا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ وزیراعظم پاکستان کو ڈبل شاہ قرار دے رہے ہیں؟ انہوں نے اپنی موٹی عینک کے پیچھے موجود آنکھوں کو سکیڑا اور کہا کہ بھولیں مت، جب 2013ء میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 14 ہزار ارب روپے سے کچھ زائد تھا۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے وزارت خزانہ امپورٹڈ فنانس مینیجرز کے حوالے کی تو قرضوں کا بوجھ 24 ہزار ارب روپے تھا اور صرف تین سال کے اندر اندر قرضوں کا بوجھ 40 ہزار ارب روپے کے قریب ہے۔
مسلم لیگ ن نے پانچ سال میں 10 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے اور ان قرضوں سے لمبی لمبی موٹرویز بنائیں، بہت سے پرانے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے اور کئی نئے منصوبے شروع کیے۔ عمران خان نے نئے پاکستان کے نام پر صرف تین سال میں 16 ہزار ارب روپے کے نئے قرضے لیے اور معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ معیشت ڈبل نقصان میں چل رہی ہے۔ عام آدمی کی مصیبتیں ڈبل ہو چکی ہیں، تو اس دور کو میں ڈبل شاہ کا دور نہ کہوں تو کیا کہوں؟
میں نے اس ماہر معیشت سے کہا کہ آپ تو وہی بات کر رہے ہیں، جو احسن اقبال، مفتاح اسماعیل اور مریم اورنگ زیب روزانہ کرتے ہیں۔ وہ طنزیہ انداز میں مسکرائے اور بولے کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل دونوں کا ناقد تھا لیکن بھائی صاحب! وہ کم از کم ڈبل شاہ تو نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے وارننگ دی کہ اگلے دو تین ماہ پاکستان کی معیشت کے لیے بڑے سخت ہیں اور معیشت بچانے کے لیے پاکستان کے عام آدمی کی قربانی ہونے والی ہے اور ہر طرف ڈبل شاہ مردہ باد کے نعرے گونجیں گے۔ حکومت ایک کالعدم تنظیم سے تو نمٹ لے گی لیکن عام آدمی سے کیسے نمٹے گی؟
ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دوسری طرف ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ محاذ آرائی کے باعث پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال سے دل گھبرایا تو میں نے ایک پرانے نیاز مند سے رابطے کا فیصلہ کیا، جو آج کل وفاقی حکومت میں وزیر بھی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کالعدم تحریک لبیک کے معاملے پر اتنی کنفیوژن کیوں ہے؟ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید اور فواد چودھری کے بیانات میں تو کچھ کنفیوژن ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کسی کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔ بہت جلد ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں کو سبق سکھا دیا جائے گا۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آنے والے دنوں میں مہنگائی پر بھی کنٹرول ہو جائے گا یا نہیں؟ وزیر صاحب نے جواب دیا کہ دیکھیے بھارت میں آج بھی پاکستان کی نسبت پٹرول زیادہ مہنگا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جناب بھارتی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں اتنی کمزور نہیں ہوئی، جتنی پاکستانی کرنسی کمزور ہو رہی ہے۔ بات صرف پٹرول کی نہیں ہے، مہنگائی تین سال میں ڈبل ہو چکی ہے اور لوگ ڈبل شاہ کو یاد کرنے لگے ہیں۔
وزیر صاحب چند لمحے خاموش رہے پھر محتاط لہجے میں بولے، وزیراعظم سے غلط فیصلے کروانے والے خود ذمہ داری نہیں لیتے اور وزیر اعظم کو پھنسا دیتے ہیں۔ جب میں نے وزیر صاحب سے کہا کہ پارلیمانی طرز حکومت میں تمام اہم فیصلوں اور پالیسیوں کا ذمہ دار وزیر اعظم ہوتا ہے تو وزیر صاحب خاموش ہو گئے۔
وزیر اعظم پاکستان نے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی اور شہزادے نے پاکستان کی مدد کا اعلان بھی کیا۔ اس اعلان کے باوجود عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا حکومت کے فنانس مینیجرز بتائیں گے کہ صرف تین سال میں 16 ہزار ارب روپے کے قرضے کدھر خرچ کیے گئے؟
اگر پچھلی حکومتوں کے قرضے بھی اتارے تو ذرا بتا دیں کہ پچھلی حکومتیں پانچ سال میں 10 ہزار ارب روپے قرض لیتی تھیں، آپ نے تین سال میں 16 ہزار ارب روپے قرضے لیے، یہ کیا چکر ہے؟ خدانخواستہ میں وزیراعظم صاحب کو ڈبل شاہ نہیں کہہ رہا لیکن ان کے اردگرد کوئی نہ کوئی ڈبل شاہ ضرور ہے، جو صرف وزیراعظم سے نہیں بلکہ پوری قوم سے دھوکا کر رہا ہے۔ ڈبل شاہ کسی بڑے عہدے کے لالچ میں صرف وزیر اعظم کو نہیں، پوری قوم کو ایک ڈبل ٹریجڈی کی طرف دھکیل رہا ہے۔