ڈربن میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس دوسرے ہفتے میں
6 دسمبر 2011موسمیاتی تبدیلیوں اور اُن کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کو روکنے کے لیے آج کل دُنیا بھر میں یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو زیادہ سے زیادہ دو سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جائے۔ تاہم ڈربن میں اپنا تازہ ترین مطالعاتی جائزہ جاری کرتے ہوئے ماحولیاتی تنظیم کلائمیٹ ایکشن ٹریکر کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر تمام ممالک فضا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے سلسلے میں اپنے وعدوں پر قائم بھی رہیں تو بھی وہ زمینی درجہء حرارت میں دو سینٹی گریڈ سے زیادہ کے اضافے کو نہیں روک پائیں گے اور امکان یہ ہے کہ درجہء حرارت میں اضافے کی شرح 3.5 فیصد یا اِس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی۔
منگل سے اس کانفرنس میں مختلف ملکوں کے وُزراء بھی شریک ہو رہے ہیں۔ ڈربن میں جاری ماحولیاتی کانفرنس سے پہلے ہی یہ سننے میں آ رہا تھا کہ لوگ اس کانفرنس سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رہے۔ تاہم اِس مایوسی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سیکرٹریٹ کی سربراہ کرسٹیانا فگیریس کا کہنا تھا:’’کانفرنس کے پہلے ہفتے کی کارروائی تعمیری نوعیت کی تھی۔ بہت کام کیا گیا اور بہت سے فیصلوں کو اب ایسی شکل دی جا چکی ہے کہ اُنہیں منظور کیا جا سکتا ہے۔ اِس ہفتے مجوزہ فیصلوں کے لیے بہت ہی اچھی تیاری کی جا چکی ہے۔‘‘
وُزراء کی سطح کے مذاکرات میں گرین کلائمیٹ فنڈ اور جنگلات کے تحفظ کے لیے مالی وسائل کی کمی کا معاملہ بھی زیر غور ہے لیکن اصل اور بنیادی مسئلہ کیوٹو دستاویز کی جگہ کسی نئے معاہدے کی منظوری ہے۔ کیوٹو دستاویز ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کے سلسلے میں اب تک اپنی نوعیت کا واحد بین الاقوامی سمجھوتہ ہے، جس کی مدت آئندہ برس ختم ہو جائے گی۔
یورپی یونین جو اب تک اپنے ہاں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی مقدار میں بیس فیصد تک کمی کے عزم پر قائم ہے، مستقبل کے کسی سمجھوتے میں اس شرح کو تیس فیصد تک بھی لے جانے پر آمادہ ہے۔ تاہم یورپی یونین کی ماحولیاتی امور سے متعلق کمشنر کونی ہیڈے گارڈ نے کہا کہ ایسا تبھی ممکن ہے، جب دیگر ممالک بھی کاربن گیسوں میں کمی کی یقین دہانی کروانے کے لیے رضا مند ہوں:’’ہم کیوٹو سمجھوتے ہی کی نہیں بلکہ کیوٹو پروٹوکول کے تحت شروع ہونے والے پورے عمل کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ ہم نے نہ صرف کیوٹو دستاویز میں طے کردہ اہداف حاصل کیے ہیں بلکہ ہم نے اُن سے بھی آگے جا کر ان گیسوں کی مقدار میں کمی کی ہے۔‘‘
یورپی یونین بلا شبہ طے کردہ اہداف سے بھی آگے جا کر تحفظ ماحول کے لیے کوششیں عمل میں لا رہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یونین کے رکن ممالک دُنیا بھر میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی کل مقدار میں سے محض گیارہ فیصد کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ماحولیاتی تحفظ کے عمل میں سرگرم شرکت مفقود ہونے کے بعد ڈربن ماحولیاتی مذاکرات کی کامیابی کا امکان اُسی صورت میں ہے کہ سب سے زیادہ فضائی آلودگی کا باعث بننے والا چین ہی نہیں بلکہ بھارت، جنوبی افریقہ اور ویت نام جیسے ممالک بھی اپنے اپنے ہاں کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی پر آمادہ ہو جائیں۔
رپورٹ: ہیلے ژَیپے سَن / امجد علی
ادارت: حماد کیانی