ڈرون حملوں میں جرمن شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی ہے:جرمن وزیر داخلہ
6 اکتوبر 2010جرمن وزیر داخلہ تھوماس دے مائیزئیر نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ اب تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں 8 جرمن مسلم انتہا پسند مارے گئے ہیں۔ ایک ریڈیو انٹرویو میں جرمن وزیر نے کہا ’ مجھے اس امر پر گہرا تعجب ہو رہا ہے کہ یہ حملہ مبینہ طور پر پیر کو پاکستان کے ایک ایسے علاقے میں کیا گیا جہاں تک رسائی تقریباً ناممکن ہے وہ بھی بغیر پائلٹ کے طیاروں سے اور اُسی وقت اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت بھی ہو گئی‘۔ جرمن ریڈیو ڈوئچلنڈ فُنک کو انٹرویو دیتے ہوئے جرمن وزیر داخلہ نے مزید کہا ’ یہ سب کچھ ناقابل فہم ہے، ہمیں اس معاملے کی مزید وضاحت چاہئے‘۔
جرمن وزیر اس سے پہلے بھی ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ان کے ملک کو مسلم انتہا پسندوں کے حملوں سے کوئی خاص خطرات لاحق نہیں ہیں اور یہ کہ اس قسم کی خبریں مفروضات پر مبنی ہیں۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار جرمنی کی ڈوئسبرگ/ ایسن یونیورسٹی کے ایک جرمن ماہر سیاسیات اور پاکستان شناس ڈاکٹر یوخن ہپلر نے بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ یہ محض قیاس آرائی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک تو یہ کہ اس خبر کا ذریعہ جُزوی طور پر امریکی نیوز چینل فوکس ہے جو کوئی سنجیدہ نشریاتی چینل نہیں ہے۔ اس کی جانب سے پھیلنے والی اس خبر کا منبہ دراصل خفیہ ادارہ ہے اور اصل ذرائع کے بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ سب کچھ خاصہ مبہم ہے‘۔
جرمن وزیر داخلہ دے مائیزئیر نے یہ ضرور کہا ہے کہ غیر جانبدار ذرائع سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ جرمنی سے پاکستان کا سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جرمن وزیر کے بقول’ ہم ان سب لوگوں کو نہیں جانتے، تاہم ان میں سے اکثر کے بارے میں ہمیں علم ہے۔ ہم نے بہت سے افراد کے پاکستان جانے کے پروگرام میں رخنا بھی ڈالا ہے۔ پاکستان سے واپس جرمنی آنے والے کچھ افراد تو نہایت مایوس نظر آتے ہیں اور چند وہاں سے تربیت حاصل کر کہ لوٹتے ہیں۔ ہم نے ان سب پر کڑی نگاہ رکھی ہوئی ہے‘۔
جرمن ماہر سیاسیات کا اس بارے میں کہنا ہے کہ دراصل 2008 اور 2009 سے اس قسم کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ جرمن شہری یا نو مسلم جرمن انتہا پسند یا جرمن شہریت رکھنے والے دیگر مسلم باشندے پاکستان جا کر تربیتی کیمپوں سے دہشت گردانہ حملوں کی ٹرینگ لے رہے ہیں۔ تاہم ان کی تعداد کے بارے میں ہمیشہ متضاد خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ دو درجن کے قریب بتائی جاتی ہے تو کبھی یہ تعداد 100 سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ بحر حال اس وقت خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ ان کی تعداد 40 کے قریب ہے۔ ہپلر کہتے ہیں ’ان میں سے چند تو پاکستان اسی مقصد سے جاتے ہیں کہ وہاں سے عسکریتی تربیت حاصل کرکہ اس جنگ کو یورپ تک پہنچائیں جب کہ اکثر محض دو تین ماہ کےلئے پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد میں شریک ہونے کے مقصد سے جاتے ہیں اور اُس کے بعد وہ جرمنی آ کر ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ نہایت غیر واضح ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان دو مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان تمیز کی جائے‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان جاکر دہشت گردانہ کارروائیوں کی تربیت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو پہلے ہی پکڑا نہیں جا سکتا جرمن ماہر یوخن ہپلر نے کہا کہ یہ پتا لگانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون کس نیت سے پاکستان جا رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان یا اُس خطے کی طرف جانے والے تمام جرمنوں کو شکوک کی بنیاد پر حراست میں لے لیا جائے۔ اس سلسلے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اُن کے بقول ’ ماضی میں بہت سے بے گناہ جرمن باشندوں کے ساتھ اس سلسلے میں زیادتی ہو چکی ہے۔ انہیں شک کی بنیاد پر نہ صرف پکڑا گیا بلکہ شدید اذیت بھی پہنچائی گئی۔ مثال کے طور پر ترک نژاد جرمن باشندہ موراد کورناز جو بظاہر سیاسی اور مذہبی سوچ کا حامل رہا ہوگا تاہم وہ کہیں سے دہشت گرد یا مجرم نہیں تھا تب بھی پاکستانی حکام نے اُسے گرفتار کر کہ امریکی خفیہ ایجنسی کا حرالے کر دیا جہاں اُس کے ساتھ بہت زیادہ اذیت رسانی کی گئی۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے پاکستان جانے والے ہر کسی کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھنے کا عمل غلط ہوگا‘۔
دریں اثناء جرمن دفتر خارجہ نے پیر کے روز پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے 8 میں سے پانچ افراد کے جرمن ہونے کی خبر پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے یہ کہ کر انکار کیا ہےکہ برلن حکومت کو اس بارے میں معتبر اطلاعات نہیں ملی ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق