ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتیں، اعداد و شمار کا مطالبہ
19 اکتوبر 2013پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے آمدہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار بَین ایمرسن نے بتایا کہ ایک نئی رپورٹ کے لیے جمع کردہ ابتدائی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکی ڈرون حملوں میں اب تک مارے جانے والے شہریوں کی تعداد 450 سے زائد ہو سکتی ہے۔ تاہم ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے ابھی مزید چھان بین کی ضرورت ہے۔
خبر ایجنسی اے پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ امریکا کی طرف سے مشتبہ دہشت گردوں اور مسلمان عسکریت پسندوں کے خلاف اس کے ڈرون پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات منظر عام پر لائی جاتی ہیں، خاص طور پر پاکستان اور یمن میں ایسے حملوں کے بارے میں، جہاں ایسی فضائی کارروائیوں میں امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے بھی شامل ہوتا ہے۔
بَین ایمرسن کی طرف سے جمعے کے روز جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کے تعین کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ ایسی عسکری کارروائیوں میں شفافیت کا فقدان ہے۔ ’’اس عدم شفافیت کے باعث یہ بات انتہائی مشکل اور صبر آزما ہو جاتی ہے کہ ایسے حملوں کے انتہائی محتاط اور ناپ تول کر کیے جانے سے متعلق دعووں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جا سکے۔‘‘
عالمی ادارے کے ایماء پر تیار کردہ اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کے بارے میں ’شفافیت کے فقدان سے شہری ہلاکتوں کے سلسلے میں متعلقہ عناصر سے جواب طلبی کے لحاظ سے نہ صرف ایک خلاء پیدا ہو جاتا ہے بلکہ اس طرح متاثرہ خاندانوں کی اپنے لیے ازالے کی طلبی کے حوالے سے صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔‘
اس رپورٹ کے مطابق امریکا اور ڈرون طیارے استعمال کرنے والے اسرائیل اور برطانیہ جیسے دوسرے ممالک پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈرون حملوں میں مبینہ شہری ہلاکتوں کی چھان بین کریں اور ایسے فضائی حملوں کی وجوہات کے طور پر اپنی طرف سے قانونی توجیہات کی وضاحت بھی کریں۔
بَین ایمرسن کے بقول پاکستان اور یمن میں امریکی ڈرون حملوں میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عسکری شفافیت کو یقینی بنانے کے عمل میں ایسی رکاوٹیں پیدا ہو چکی ہیں جنہیں عبور کرنا ممکن نہیں ہے۔ عالمی ادارے کے اس خصوصی نامہ نگار کے مطابق انہیں یقین ہے کہ امریکا ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار کو خفیہ رکھنے کے لیے قومی سلامتی کی وجوہات کا سہارا نہیں لے سکتا۔
اسلام آباد حکومت اقوام متحدہ کو بتا چکی ہے کہ پاکستانی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں کم از کم 400 شہری مارے جا چکے ہیں۔ شہری ہلاکتوں کی اس تعداد کا انکشاف بَین ایمرسن نے پہلی مرتبہ اس سال مارچ میں اپنے پاکستان کے ایک دورے کے دوران کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس اور سال رواں کے دوران افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں میں 30 سے زائد سویلین ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اسی طرح یمن میں بھی 2011ء سے جاری ڈرون حملوں میں کم از کم 21 شہری مارے جا چکے ہیں۔ بَین ایمرسن کے بقول پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکا نے 33 ایسے ڈرون حملے کیے جن میں شہری مارے گئے۔
عالمی ادارے کے خصوصی اہلکار بَین ایمرسن نے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے پاکستان کی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں کیونکہ اسلام آباد حکومت کئی مرتبہ عوامی سطح پر ان حملوں پر اعتراض کر چکی ہے۔ بَین ایمرسن مستقبل قریب میں اپنی حتمی رپورٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کریں گے۔