1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملوں کا خوف، افغان شہری گھر بار چھوڑنے لگے

Afsar Awan28 مارچ 2013

بمشکل چلنے کے قابل غلام رسول کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر بار کو تالا لگا کر اس کی چابی اور اپنی تین گائیں ہمسائے کے حوالے کر کے اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ جگہ منتقل ہو گیا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ امریکی ڈرون حملوں کا خوف ہے۔

تصویر: picture alliance/dpa

غلام رسول اور دیگر افغان دیہاتیوں نے امریکی پریڈیٹر ڈرون طیاروں کا اپنا ہی نام رکھا ہوا ہے۔ وہ اسے ’بنگھائی‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے ’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘۔ غلام رسول بڑھاپے کے باعث نقاہت بھری آواز میں کہتے ہیں، ’’یہ شیطانی چیزیں ہیں، جو اس قدر بلندی پر اڑتی ہیں کہ دکھائی نہیں دیتیں، مگر ہم دن رات ان کی آواز سنتے ہیں اور پھر بم برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘

امریکی فوج کی طرف سے افغانستان میں ڈرون طیاروں پر انحصار بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ سال 2011ء میں ان بغیر پائلٹ طیاروں سے 294 حملے کیے گئے تھے جبکہ گزشتہ برس 2012ء میں ایسے حملوں کی تعداد 506 تک پہنچ گئی۔ چونکہ 2014ء میں افغانستان سے بین الاقوامی افواج کا انخلاء طے ہے لہٰذا اس طرح کے حملے اب محض اپنی زمینی فوج کی مدد کی بجائے ہدف بنا کر ہلاک کیے جانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

2011ء میں بغیر پائلٹ طیاروں سے 294 حملے کیے گئے تھے جبکہ گزشتہ برس 2012ء میں ایسے حملوں کی تعداد 506 تک پہنچ گئیتصویر: picture-alliance/dpa

یہ بات اب تک واضح نہیں ہے کہ کیا 2014ء کے بعد بھی یہ ڈرون حملے جاری رہیں گے اور وہ بھی ایک ایسی صورت میں، جب افغان حکومت کی طرف سویلین ہلاکتوں کی سخت شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؟ ڈرون حملوں میں بعض اوقات حادثاتی طور پر سویلین بھی ہلاک ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے علاقوں کے دیگر افراد اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی افغان عوام میں امریکا مخالف جذبات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک ٹیم نے ملٹری سکیورٹی کے بغیر افغان صوبہ ننگرہار کے دو دیہات کا دورہ کیا، جہاں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ وہ ان ڈرون حملوں کے متاثرین ہیں۔

ان میں سے ایک گاؤں کے رہائشیوں نے ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے پانچ افراد کے بارے میں نیٹوکے اس دعوے کی نفی کی کہ وہ عسکریت پسند تھے۔ دوسرے گاؤں میں رات کے وقت ایک ایسے اسکول کو نشانہ بنا کر اسے ملیا میٹ کر دیا گیا، جس کے بارے میں شبہ تھا کہ وہاں طالبان چھپے ہوئے ہیں۔ ملبے کا ڈھیر بنے اس اسکول کی تعمیر ابھی تک ممکن نہیں ہو پائی اور 1300 کے قریب بچے متبادل جگہوں پر اپنی تعلیم جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

غلام رسول کے مطابق اس کی طرف سے اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ ایک ماہ قبل قریبی گاؤں میاں صاحب (Meya Saheeb) میں ہونے والا ایک ڈرون حملہ تھا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی امدادی فوج ISAF کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی کہ 24 فروری کو میاں صاحب کے علاقے میں فضائی حملہ کیا گیا تھا، تاہم یہ بات واضح نہیں کی گئی تھی کہ یہ ڈرون حملہ تھا یا نہیں۔

امریکی فوج کی طرف سے افغانستان میں ڈرون طیاروں پر انحصار بتدریج بڑھتا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ISAF کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند تھے جبکہ غلام رسول کا کہنا ہے کہ یہ سب لوگ کاروباری افراد تھے۔ ان میں سے ایک کی گاؤں میں قالینوں کی دکان تھی۔

ننگر ہار صوبے کے دوسرے سرے پر موجود ایک گاؤں بدیالی (Budyali) میں واقع ایک اسکول کی عمارت کو گزشتہ برس 17 جولائی کی شب نشانہ بنایا گیا۔ ISAF کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی کہ بدیالی نامی علاقے میں ایک فضائی حملے کے دوران متعدد شدت پسند مارے گئے تھے۔

اس اسکول کے ایک چوکیدار حیات گُل کے مطابق وہ اور اس کا ساتھی عبدالاحد اسکول کے کونے میں چوکیدار کے لیے بنے ہوئے کمرے میں سوئے ہوئے تھے، جب شب تین بجے بم برسنا شروع ہو گئے۔ اس حملے میں عبدالاحد ہلاک ہو گیا جبکہ حیات گُل شدید زخمی ہوا۔ مگر اس سے بھی بڑا نقصان 1300 کے قریب ان طلبہ کا ہوا، جو اب اسکول کی عمارت نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے کلاسیں لینے پر مجبور ہیں۔

حیات گُل کا خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب بہت لوگ ہلاک ہو چکے، یہ جنگ اب ختم کرنا ہوگی اور افغانوں کو اب متحد ہونا ہوگا۔ گُل کے مطابق امریکیوں کا اپنا ملک ہے، وہ وہاں واپس جائیں۔

aba/aa (AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں