ڈرون حملوں کی قیمت، کون ادا کر رہا ہے
14 فروری 2011اس علاقے میں حکومت کی طرف سے نہ صرف ایک اعلیٰ درجے کے اسکول کی تعمیر کی گئی بلکہ سڑک بھی نئی بنوائی گئی۔ شمال مغربی پہاڑی علاقے سے وابستہ ان افراد کو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ریشم خان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور پیشے کے اعتبار سے وہ ایک چرواہا ہے۔ گزشتہ برس جون میں ایک جنازے پر حملہ کیا گیا، جس میں اس کے خاندان کے پندرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ریشم خان اس حملے کے وقت جائے وقوعہ کے قریب ہی موجود تھے۔ خان کے مطابق یہ ایک امریکی ڈرون حملہ تھا۔ آج بھی خان اس صدمے سے باہر نہیں نکل پایا اور اس کا نفسیاتی علاج اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان جیسے اہم علاقے میں زمینی کارروائی کے لئے مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن امریکی ڈرون حملوں سے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
خان کا نفسیاتی علاج کرنے والے ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے، ’’اب اگر آپ ان لوگوں سے یہ توقع کریں کہ یہ حکومت سے محبت کریں تو یہ بیوقوفی ہو گی۔‘‘
ریشم خان کا غم عام پاکستانیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ خان جیسے کئی افراد افغان سرحد پر امریکی ڈرون حملوں کی قیمت چکا رہے ہیں۔ واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ کے آتے ہی ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔
ڈرون حملوں سے پاکستان میں نہ صرف عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ حکومت بھی انہیں ملکی خود مختاری پر حملہ تصور کرتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی سب سے اہم وجہ بھی ڈرون حملے ہی ہیں۔ دوسری جانب ریمنڈ ڈیوس کیس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو چکے ہیں۔ امریکی حکومت ابھی بھی یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے اس کے جنوبی ایشائی ایٹمی طاقت کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ڈرون حملے انتہائی مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔
واشنگٹن اور اسلام آباد حکومت کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ریشم خان جیسے کتنےافراد نفسیاتی مریض چُکے ہیں اور کتنے بے گناہ ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: کشور مصطفیٰ