1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈرون حملے، اسلام آباد حکومت مخمصے کا شکار

شکور رحیم، اسلام آباد5 نومبر 2013

پاکستانی پارلیمن‍ٹ می‍ں موجود جماعتوں کے درمیان مسلسل دوسرے روز بھی نی‍‍‍‍ٹو سپلائی روکنے یا ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پیش کرنے کے معاملے پر اتفاق رائے نہی‍ں ہو سکا ہے۔

تصویر: AP

گزشتہ جمعے کی شام امریکی ڈرون حملے می‍‍ں شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ م‍‍‍‍‍‍حسود کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کرتے ہوئےکہا تھا کہ یہ حملہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔

منگل کے روز قومی اسمبلی می‍‍‍ں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی قائدین کا اجلاس قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کل جماعتی کانفرنس کی روشنی میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا جو سلسلہ جاری ہوا تھا، اسے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس می‍ں شریک اپوزیشن راہنماؤں کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دیا جانا چاہیے۔ تاہم اجلاس می‍‍ں نی‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍ٹو سپلائی کی بندش کے لیے ایوان می‍‍‍‍ں قرارداد لانے کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

اس بارے میں اپوزشین راہنماؤں نے گین‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍د حکومتی کورٹ می‍ں پھینکنے کا فی‍صلہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے می‍‍‍ں حکومت جو بھی فی‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍صلہ کرے گی اپوزیشن اس کا ساتھ دے گی۔

اپوزیشن نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ناروا رویے پر سین‍‍‍‍ٹ میں احتجاج آج بھی جاری رکھاتصویر: picture-alliance/dpa

اجلاس کے بعد قومی اسمبلی می‍ں خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا: ’’ہم نے اس میٹنگ می‍ں یہ نہیں کہا کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے۔ ہم نے آج بھی یہ کوشش کی ہے کہ ہمیں بیٹھ کر ایک راستہ نکالنا چاہیے‍‍‍۔ حکومت کو کہنا چاہیے کہ آئیں مل کر کوئی ایسا راستہ نکالی‍‍ں، جس سےاس ملک می‍ں امن ہو سکے‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍‍۔ یہ ایک تاری‍‍‍خی موقع ہے کہ پہلی مرتبہ اپوزیشن راستہ دے رہی ہے۔ اپوزیشن امن کی بات کر رہی ہے۔ اپوزیشن ریاست کو بچانے کی بات کر رہی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت کوئی ایسا کام کرے جس سے پاکستان میں امن قائم ہو سکے۔‘‘

قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا ایک اور اجلاس بلا کر مستقبل کی حکمت عملی کا تعین کیا جائے۔ انہوں نے کہا : ’’اس معاملے پر کوئی جماعت سولو فلائٹ نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، اعتماد اور رابطوں کو دوبارہ بحال کر کہ آگے بڑھا جائے۔‘‘

قومی اسمبلی کے بر عکس پارلیمنٹ کے ایوان بالا می‍‍ن اپوزیش نے یکسر مختلف حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان جو گزشتہ ہفتے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ناروا رویے پر سین‍‍‍‍ٹ اجلاس کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں نے منگل کے اورز بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اپوزیشن کی راہنمائی کرنے والے پیپلز پارٹی کے سین‍‍‍ٹر اعتزاز ا‍حسن نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل سینیٹ کا اجلاس چیمبر کے باہر منعقد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایک جانب خود تسلیم کر رہی ہے کہ ڈرون حملوں میں دو ہزار سے زیادہ دہشت گرد جبکہ صرف سڑسٹھ عام شہری مارے گئے ہیں اور دوسری جانب حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا، ’’اس سیشن می‍‍ں ہم نے پروگرام بنا لیا ہے کہ حکومت کو ایکسپوز کری‍‍ں گے۔ حکومت کو بھاگنے نہی‍‍ں دیں گے اور دو‍‍‍‍‍‍‍ غلی پالیسی نہی‍ں چلنے دی‍‍ں گے۔‘‘

تمام اپوزیشن جماعتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دوسری جانب حکیم اللہ م‍حسود کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورت‍حال پر غور کے لیے پیر کی شب وفاقی کابینہ کےخصوصی اجلاس میں بھی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کا فی‍‍صلہ کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ ڈرون حملے سے مذاکرات اور قیام امن کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم اُنھوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ مذاکرات کے لیے کی جانی والی کوششوں کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں