ڈرون حملے میں جلیل حقانی سمیت گیارہ ہلاک
13 اکتوبر 2011پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ پہلا واقعہ شمالی وزیرستان کے ڈنڈِ درپہ خیل میں پیش آیا۔ افغانستان کی سرحد سے متصل اس علاقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہیں پر حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے اور تربیتی مراکز قائم ہیں۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق مارے جانے والے کمانڈر کا نام جلیل حقانی ہے، جو حقانی نیٹ ورک کا اہم رابطہ کار تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی اطلاعات کے مطابق اسی علاقے کے ایک گھر پر ڈرون طیارے کی بمباری میں پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ ڈی پی اے نے ایک پاکستانی انٹیلی جنس اہلکار کے حوالے سے بتایا، ’’ہماری اطلاعات کے مطابق ممکنہ ہدف جلیل حقانی تھا، جو حقانی نیٹ ورک کے کمیونیکیشن معاملات کا نگران ہے، وہ اور چار دیگر افراد اس حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں‘‘۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور انٹیلی جنس اہلکار نے بتایا کہ جلال حقانی کے پاس افغانستان کی شہریت تھی اور وہ نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا قریبی رشتہ دار نہیں البتہ قریبی ساتھی تھا۔
اس پہلے حملے کے کچھ ہی دیر بعد ملحقہ جنوبی وزیرستان میں بھی ایک ڈرون حملہ کیا گیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برمل نامی علاقے میں کی گئی اس کارروائی میں چھ مبینہ عسکریت پسند مارے گئے۔ پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق مارے جانے والوں کا تعلق مولوی فقیر محمد کے گروپ سے تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے اعداد و شمار کے مطابق قبائلی علاقوں میں رواں سال قریب ۵۰ ڈرون حملے ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت نے شمالی وزیرستان کے علاقوں کو نشانہ بنایا۔
حقانی نیٹ ورک کے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ مبینہ تعلقات کے سبب اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ امریکہ کا الزام ہے کہ پاکستان ان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرتا ہے جو افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم حلیف پاکستان کے خلاف امریکی حکام نے یہ سنگین ترین الزام کابل کے امریکی سفارتخانے پر ہوئے حملے میں حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے بعد لگایا تھا۔
یہ ڈرون حملے ایسے وقت میں کے گئے جب افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مارک گروسمین اسلام کے دورے پر ہیں۔