ڈریسڈن میں درجنوں مہاجرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں
صائمہ حیدر نک مارٹن
29 مئی 2018
جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں درجنوں پناہ گزینوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں دو پولیس اہلکار اور ایک سیکیورٹی گارڈ زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ پولیس اہلکار مہاجرین کے درمیان ہونے والی لڑائی ختم کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
تصویر: Getty Images/M. Rietschel
اشتہار
جرمنی کے مشرق میں واقع شہر ڈریسڈن میں حکام کا کہنا ہے کہ پچاس کے قریب مہاجرین نے اُس وقت پولیس پر حملہ کیا جب وہ تارکین وطن کے لیے بنائے گئے ایک مرکز میں ہونے والی ایک لڑائی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اطلاعات کے مطابق سیکیورٹی گارڈز نے جارجیا کے دو تارکین وطن کے درمیان کھانے پر ہونے والی ایک لڑائی کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو طلب کیا تھا۔ ڈریسڈن کی پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا،’’تب پچاس کے قریب مہاجرین نے پولیس اہلکاروں پر جلے ہوئے سگریٹ پھینکے اور اُس کے بعد انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ جب کہ ایک تارک وطن نے تو لوہے کی راڈ سے ایک پولیس افسر پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔‘‘
پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں دو پولیس افسر اور ایک سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کی مزید نفری کو طلب کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
بتایا گیا ہے کہ چار مشتبہ افراد کو، جن کی عمریں سترہ، بیس ستائیس، اور بیالیس سال ہیں، نقص امن کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان تمام ملزمان کا تعلق جارجیا سے ہے۔
پولیس کے مطابق ان میں سے ایک کو دوران حراست ہی ڈی پورٹ کر دیا جائے گا جب کہ تین دیگر افراد کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
مہاجرین اور جرمن پولیس کے درمیان جھڑپ کے اس حالیہ واقعے سے پہلے اس ماہ کے اوائل میں جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کے ایک دیہات ایلوانگن میں ڈیڑھ سو کے قریب مہاجرین نے پولیس پر حملہ کیا تھا۔
یہ پولیس اہلکار پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر ایک تارک وطن کو جرمنی بدر کرنے کے لیے آئے تھے۔ صورت حال کو خراب ہوتا دیکھ کر پولیس کو ڈی پورٹ کیے جانے والے مہاجر کی ہتھکڑی کھولنا پڑی تھی۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔