ڈس انفارمیشن ویب سائٹس، آمدنی دو سو ملین ڈالر سے زائد: رپورٹ
23 ستمبر 2019
ایک نئی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ڈس انفارمیشن پھیلانے والی ہزاروں ویب سائٹس کو سالانہ سینکڑوں ملین ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے۔ ایسی ویب سائٹس غلط معلومات پھیلاتی ہیں اور ان کے ذرائع ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔
اشتہار
اس مطالعاتی جائزے کے مطابق عالمی سطح پر اگرچہ ہر ملک میں ہی ایسی ویب سائٹس کی روک تھام کی بات کی جاتی ہے، تاہم ایسے آن لائن پورٹل آج بھی اشتہارات کی مد میں سینکڑوں ملین ڈالر کما رہے ہیں۔ ان ویب سائٹس کا مقصد عام لوگوں کو غلط معلومات پہنچا کر ان کی رائے کو غلط راہ پر ڈالنا ہوتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود ایسی ویب سائٹس دنیا کی چند بہت بڑی بڑی کمپنیوں تک سے اشتہارات لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اس بارے میں برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم گلوبل ڈس انفارمیشن انڈکس (جی ڈی آئی) نامی تنظیم کی طرف سے پیر تیئیس ستمبر کو بتایا گیا کہ اس وقت دنیا بھر میں ڈس انفارمیشن پھیلانے والی ایسی ویب سائٹس کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے اور انہیں سالانہ 235 ملین ڈالر یا 213 ملین یورو تک کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔
جی ڈی آئی کے پروگرام ڈائریکٹر کریگ فیگن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈی انفارمیشن ایک ایسی حقیقت ہے، جس کے محرکات بہت متنوع ہوتے ہیں اور ایسا مختلف وجوہات کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سے سب سے پرکشش وجہ بے تحاشا مالی وسائل تک رسائی حاصل کرنا بھی ہے۔‘‘
کریگ فیگن کے مطابق ایسی ویب سائٹس کا متنازعہ ہونا اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن ان کے لیے اہم ترین بات انہیں ڈس انفارمیشن سے حاصل ہونے والا سرمایہ ہوتا ہے۔ اس بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک سابق مشیر اور انتہائی دائیں بازو کے نظریہ ساز اسٹیو بینن نے تو اسی سال اپنی ایک ویڈیو میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ایسی آمدنی انتہائی دائیں بازو کے آن لائن میڈیا اداروں کے لیے مالی وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کی طرف سے کی جانے والی تحقیق سے یہ پتہ بھی چلا کہ ایسی ڈس انفارمیشن ویب سائٹس میں سے دو، 'ٹوِچی‘ اور 'زیرو ہَیج‘ دو ایسے پورٹل ہیں، جن کی ماہرین نے ڈس انفارمیشن پھیلانے والی دو ویب سائٹس کے طور پر باقاعدہ نشاندہی تو کر رکھی ہے لیکن ان دو اداروں کو اشتہارات دینے والوں میں جرمنی کی چند بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ ان جرمن کمپنیوں میں جرمنی کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی ڈوئچے بان، کار ساز ادارے اوپل، ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ڈوئچے ٹیلی کوم، پوسٹ بینک اور آن لائن کتابیں بیچنے والے بڑے ادارے 'ٹالیا‘ سمیت بہت سی کمپنیاں شامل ہیں۔
گلوبل ڈس انفارمیشن انڈکس نامی ادارے کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ ان جرمن اداروں کو یہ علم بھی ہو کہ ان کی طرف سے اشتہارات کے لیے دی جانے والی رقوم دراصل ڈس انفارمیشن پھیلانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ صورت حال اس امر کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ آج کل کی ڈیجیٹل دنیا میں آن لائن ایڈورٹائزنگ کو کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کے مالیاتی نتائج
انویسٹمنٹ ایجنسی 'ذینِتھ‘ کے مطابق انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کے لیے آن لائن مارکیٹنگ کی خاطر جگہ کسی بھی ویب سائٹ پر ہمیشہ کسی نہ کسی سافٹ ویئر کی مدد سے ہی خریدی یا بیچی جاتی ہے۔ اس عمل کو 'پروگرامیٹک ایڈورٹائزنگ‘ کہتے ہیں اور اس طرح خرچ کی جانے والی رقوم ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کے لیے استعمال کی جانے والی سالانہ رقوم کا تقریباﹰ دو تہائی بنتی ہیں۔
مزید یہ کہ اس طرح کی آن لائن اشتہاری مہموں کے نتیجے میں اس سال پوری دنیا میں تقریباﹰ 84 بلین یورو کا کاروبار کیا جائے گا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگلے برس ایسے آن لائن کاروبار کی مالیت امسالہ رقم سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی۔ ماہرین کے مطابق ایسے میں ضروری بات یہ ہے کہ ایسی آن لائن مہموں کے لیے اشتہارات ایسی ویب سائٹس کو نہ دیے جائیں، جو ڈس انفارمیشن پھیلانے کا کام کرتی ہیں۔
اس بارے میں وفاقی جرمن حکومت نے اسی سال جون میں اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ 'پروگرامیٹک ایڈورٹائزنگ‘ ایک مسئلہ ہے اور اسے اس کی موجودہ حالت میں اور جامع سرکاری ریگولیشن کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس بارے میں جی ڈی آئی کے پروگرام ڈائریکٹر کریگ فیگن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پوری آن لائن ایڈورٹائزنگ انڈسٹری کا مسئلہ ہے اور اسے پوری انڈسٹری کی سطح پر ہی حل کیا جانا چاہیے۔‘‘
لوئس سینڈرز (م م / ع ا)
جدید ٹیکنالوجی مستقبل قریب میں ہماری دنیا کیسے بدل دے گی؟
جرمن شہر ہینوور میں جدید ٹیکنالوجی کا سالانہ میلہ سیبِٹ 2017 جاری ہے۔ رواں برس اس بڑی بین الاقوامی نمائش میں کیا نئی چیزیں متعارف کرائی جا رہیں ہیں اور وہ ہماری زندگیوں کو کیسے بدل کر رکھ دیں گی؟
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Gentsch
گاڑی جو آپ کی عادات سمجھتی ہے
اس سال سیبِٹ میں مشہور کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے نامور ادارے آئی بی ایم ایک ساتھ دکھائی دیے۔ دونوں ادارے ایک ایسی اسمارٹ کار بنانے میں مصروف ہیں جو اپنے مالک کی عادات اور مزاج سے آگاہ ہو گی۔ آپ کی آج مصروفیات کیا ہیں؟ مستقبل کی کار نہ صرف ان باتوں سے واقف ہو گی بلکہ آپ کو مشورے بھی دی گی۔ یوں سمجھیے اسمارٹ کار اب آپ کی مشیر بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
گھر، شہر، ملک، دنیا - سب ایک دوسرے سے منسلک
سن 2020 تک پچاس ارب سے زائد ڈیوائسز انٹرنیٹ سے منسلک ہوں گی۔ چند برس بعد کی دنیا میں آپ کا موبائل اور کار ہی اسمارٹ نہیں ہوں گے بلکہ سارا گھر اور شہر بھی اسمارٹ ہوں گے۔ جیسے آج کی ’اسمارٹ واچ‘ ہماری نبض اور دل کی دھڑکن پر نظر رکھتی ہے آئندہ اسی طرح پورا گھر، بلکہ پورا شہر بھی آپ کی زندگیاں آسان بنانے میں مددگار ہوں گے۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
جاپان: اس سال کا پارٹنر ملک
سیبِٹ 2017 نمائش میں جاپان کو پارٹنر ملک کے طور پر شریک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی اختراعات کے لیے جاپان ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس برس سیبِٹ میں جاپانی ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کمپنیاں شریک ہیں اور نمائش کے افتتاح میں جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے خاص طور پر شرکت کی تھی۔ جاپانی روبوٹ ٹیکنالوجی اس مرتبہ نمایاں رہی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
دنیا بھر سے ہزاروں کمپنیوں کی شرکت، پاکستان ندارد
اس برس کی نمائش میں تین ہزار سے زائد کمپنیاں شریک ہیں۔ موبائل ٹیکنالوجی سے لے کر دفاتر کی ڈیجیٹلائزیشن، صنعتوں اور صحت کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال تک مختلف النوع نئی ایجادات دکھائی جا رہی ہیں۔ بھارت سے قریب دو سو اور بنگلہ دیش سے بھی چھیالیس کمپنیاں شرکت کر رہی ہیں تاہم پاکستان سے اس مرتبہ بھی کسی کمپنی نے شرکت نہیں کی۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
تھری ڈی پرنٹر سے انسانی اعضا کی پرنٹنگ
مستقبل قریب میں جدید ٹیکنالوجی انسانی صحت میں کیسے مدد گار ثابت ہو گی، اس کی ایک بھرپور جھلک بھی اس نمائش میں دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی اعضا اور انسانی ٹیشوز کی پرنٹنگ۔ اس سال صحت اور ٹیکنالوجی کے موضوع پر کئی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جن میں ماہرین صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر اب تک کی گئی تحقیق پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
حقیقی اور ورچوئل کا مٹتا ہوا فرق
مصنوعی ذہانت اور ورچوئل ریئیلیٹی نیا موضوع نہیں۔ لیکن اس مرتبہ کی نمائش میں یوں لگا جیسے آئندہ کے چند برسوں میں حقیقی اور مرئی کا فرق بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ پہلے ’ورچوئل ریئیلیٹی‘ عینکوں کے ذریعے ایک غیر حقیقی دنیا کی سفر کیا جا سکتا تھا لیکن اب کی بار تو ایسی ایجادات دیکھی گئیں جن کے ذریعے صرف آنکھیں ہی نہیں، بلکہ پورا انسانی جسم ایک غیر حقیقی دنیا میں جا کر محسوسات کا احاطہ کر سکے گا۔
تصویر: DW/A. Tauqeer
ڈیجیٹل دنیا کتنی محفوظ ہے؟
جب انسان سے منسلک قریب ہر ڈیوائس انسانی موجودگی کے بارے میں سب کچھ جانتی ہو تو پھر یہ خدشہ بھی ہمہ وقت رہتا ہے کہ ’بِگ بردر‘ بھی ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سال کے سیبِٹ میں ’ڈیجیٹل سکیورٹی‘ کا موضوع بھی نمایاں رہا۔ کئی کمپنیوں نے ایسے آلات کی نمائش کی جو ہمارے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن نے بھی اس بارے میں ویڈیو کانفرنس کال کے ذریعے خطاب کیا۔