کوپن ہیگن حکومت کا کہنا ہے کہ اس برس اقوام متحدہ کے کوٹہ سسٹم کے تحت مزید مہاجرین کو قبول کیے جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ ڈنمارک سمیت کئی ممالک اقوام متحدہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت مہاجرین کو پناہ دیتے ہیں۔
اشتہار
ڈنمارک کی دائیں بازو کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس برس اقوام متحدہ کے کوٹہ سسٹم کے تحت مزید مہاجرین قبول نہیں کیے جا سکتے۔ اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت کئی ممالک ایک کوٹہ سسٹم کے ذریعے سالانہ بنیادوں پر مہاجرین کو پناہ دیتے ہیں۔ سن 1989 سے جاری اس کوٹہ سسٹم کے تحت ڈنمارک میں سالانہ پانچ سو سے زائد مہاجرین کو پناہ دی جا رہی تھی۔
تاہم اب مہاجرت کے بارے میں سخت موقف رکھنے والی ڈنمارک کی وزیر برائے سماجی انضمام انگر اسٹوژبرگ کا کہنا ہے کہ ڈنمارک ’اب اس معاہدے کا حصہ نہیں بننا چاہتا، اس برس کوٹہ سسٹم کے تحت مزید مہاجرین کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہے‘۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
اسٹوژبرگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سن 2012 سے لے کر اب تک چھپن ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو ڈنمارک میں قبول کیا گیا ہے اور ان میں کئی لوگ اب اپنے اہل خانہ کو بھی ڈنمارک لانا چاہ رہے ہیں لہٰذا ڈنمارک میں پہلے سے مقیم تارکین وطن کا سماجی انضمام کوپن ہیگن کی اولین ترجیح ہے۔
ڈنمارک کی مہاجر مخالف سیاسی جماعت ڈینش پیلز پارٹی نے اس نئے حکومتی اعلان کی تائید کرتے ہوئے حکومت کو تعاون کی پیش کش کی ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت سوشلسٹ پیپلز پارٹی نے کوپن ہیگن حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’اسٹوژبرگ کی جانب سے کوٹہ سسٹم کے تحت آنے والے مہاجرین کے لیے دروازے بند کرنے کا اعلان انتہائی غلط ہے۔‘‘
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد ڈنمارک نے بیس ہزار تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا ہے۔ یہ تعداد جرمنی اور سویڈن جیسے ہمسایہ ممالک کی نسبت انتہائی کم ہے۔ جرمنی میں اس عرصے کے دوران ایک ملین سے بھی زائد مہاجرین آئے تھے۔
مہاجرت کے بارے میں سخت موقف رکھنے والی ڈینش وزیر اسٹوژبرگ نے گزشتہ برس بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے منصوبہ کے تحت مہاجرین کو پناہ دیے جانے کا منصوبہ یہ کہہ کر موخر کر دیا تھا کہ فی الوقت ڈنمارک کی مقامی حکومتوں کے پاس مہاجرین کو رہائش گاہیں مہیا کرنے کے لیے وسائل ناکافی ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔