1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک جرمن سرحد پر متنازعہ حفاظتی باڑ تعمیر کرے گا

15 اگست 2018

ڈنمارک کی حکومت جرمن سرحد پر متنازعہ حفاظتی باڑ کھڑی کرے گی، جس کا مقصد سوائن فلو کا پھیلاؤ روکنا ہے۔ تاہم ناقدین نے اس اقدام کو مہاجرین مخالف حلقوں کا اعتماد جیتنے کی ایک علامتی کوشش قرار دے دیا ہے۔

Bildergalerie Gipfeltreffen G6 G8 G7 Elmau 2015
تصویر: Getty Images/L. Preiss

ڈنمارک کی حکومت نے کہا ہے کہ جرمن سرحد پر 68 کلو میٹر طویل حفاظتی باڑ کھڑی کی جائیں گی، جس کا بنیادی مقصد سوروں کے فارمز کو جنگلی خنزیروں سے بچانا ہے۔ حکام کے مطابق یہ جنگلی خنزیر ڈنمارک میں افریقی سوائن فلو کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔

تاہم ناقدین کے مطابق گیارہ ملین یورو کا یہ منصوبہ رقوم کا زیاں ہے کیونکہ ان سرحدی رکاوٹوں سے ایک ایسے مسئلے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے۔ ماحول دوست کارکنان نے بھی اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس طرح حیاتیاتی تنوع کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

ڈنمارک میں دائیں بازو کے سیاستدان ان سرحدی رکاوٹوں کو علامتی طور پر اپنی فتح تصور کریں گے کیونکہ وہ مہاجرین کے ملک میں داخلے کے خلاف ہیں اور وہ حکومت سے ایسے اقدامات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، جن سے ڈنمارک میں غیرقانونی آمدورفت کا سلسلہ تھم سکے۔

ڈیرھ میٹر بلند یہ باڑ جرمنی سے متصل پوری ڈینش سرحد پر تعمیر کی جائے گی۔ حکومتی منصوبے کے مطابق سن 2019 کے اواخر تک یہ رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں گی۔

تاہم شینگن زون کے رکن ملک ڈنمارک میں قائم کی جانے والی ان رکاوٹوں سے سرحدی راستوں کی ٹریفک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان دونوں ممالک کی سرحد پر متعدد سرحدی گزرگاہیں ہیں، جو معمول کے مطابق کھلی رہیں گی۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق جنگلی خنزیروں کے سرحد عبور کرنے سے سوائن فلو کے پھیلنے کے خطرات نہیں ہوتے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ جرمنی میں اس بیماری کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ ڈںمارک اس طرح سرحدوں کو بند کرنا شروع کر دے۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں اگر ایسی کوئی بیماری پھیلی تو اس کی وجہ جانوروں کا سرحد عبور کرنا نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق جرمنی سے ڈنمارک آنے والے ٹرانسپورٹ ٹرکوں میں متاثرہ سور یا متاثرہ وائرس والی خوارک اس بیماری کے پھیلاؤ کا باع بنے گی۔

ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں