1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک: مسجد اور ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن جلانے کا واقعہ

28 جنوری 2023

ڈنمارک کے ایک انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان کی جانب سے دارالحکومت کوپن ہیگن کی ایک مسجد کے سامنے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے بعد ترکی نے ڈنمارک کے سفیر کو طلب کر لیا۔

Deutschland | NATO Außenministertreffen in Berlin | Mevlüt Cavusoglu
تصویر: /AP Photo/picture alliance

یورپ کے ایک اسلام مخالف سیاسی رہنما نے 27 جنوری جمعے کے روز پہلے دارالحکومت کوپن ہیگن کی ایک مسجد کے سامنے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے ایک نسخے کو جلایا اور بعد ازاں ترک سفارت خانے کے باہر بھی ایک اور نسخے کو نذر آتش کر دیا۔

سویڈن میں تیار کردہ مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم

انتہائی دائیں بازو کے رہنما راسموس پالوڈان ڈنمارک اور سویڈن دونوں ممالک کی شہریت رکھتے ہیں۔ وہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں میں ترکی کی رخنہ اندازی سے ناراض ہو کر بطور احتجاج ایسا کر رہے ہیں۔

 نیٹو کی رکنیت: سویڈن ترک حمایت کی توقع نہ رکھے، ایردوآن 

 اس سے قبل وہ 21 جنوری کو سویڈن میں بطور احتجاج قرآنی نسخے کو نذر آتش کرنے کے اپنے کارنامے سے ترک حکومت کو پہلے ہی مشتعل کر چکے ہیں۔

ترکی اور سویڈن کے مابین نیا بحران: مظاہرے میں قرآن نذر آتش

ایک بار پھر سے جمعے کے روز انہوں نے ایک مسجد کے ساتھ ہی کوپن ہیگن میں ترک سفارت خانے کے سامنے بھی اس فعل کو دہرایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ جب تک سویڈن کو نیٹو میں شامل نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک وہ ہر جمعے کو یہ عمل جاری رکھیں گے۔

سویڈن ’قرآن جلانے کے لیے‘ مظاہرے کی اجازت منسوخ کرے، ترکی

پالوڈان نے اپنے فیس بک پیج پر لائیو نشریات میں کہا،’’ڈنمارک میں اس مسجد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد ترک سفارت خانے کے سامنے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا، ’’جب وہ (طیب ایردوآن) سویڈن کو نیٹو میں شامل ہونے دیں گے، تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ترک سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش نہیں کروں گا۔ ورنہ میں ہر جمعے کو دوپہر 2 بجے ایسا کروں گا۔‘‘

اس سے پہلے 21 جنوری کو سویڈن میں بطور احتجاج قرآنی نسخے کو نذر آتش کیا گيا تھا، جس کے خلاف کئی عرب ممالک میں احتجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے تصویر: Mustafa Hassona/AA/picture alliance

انقرہ نے ڈنمارک کے سفیر کو طلب کر لیا

ترکی کے سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ راسموس پالوڈان کے اقدامات کے بارے میں ان کے ملک کے ’’ناقابل قبول‘‘ رویے پر احتجاج کرنے کے لیے ڈنمارک کے سفیر کو طلب کیا گیا تھا۔

  ترکی کے سفارتی ذرائع نے صحافیوں کو بتایا،’’ہم اس اشتعال انگیز عمل کی اجازت دینے کے فیصلے کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں، جو کہ واضح طور پر ایک نفرت انگیز جرم ہے۔‘‘ بیان کے مطابق  ترکی توقع کرتا ہے کہ یہ ’’اجازت منسوخ کر دی جائے گی۔‘‘

اس کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں پالوڈان کو ’’اسلام سے نفرت کرنے والا شخص‘‘ قرار دیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہیں آخر اس طرح کے عمل کی اجازت کیسے دی جا رہی ہے۔

وزارت نے اپنے بیان میں کہا، ’’یورپ میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کی حساسیت کو مجروح کرنے والی ایسی گھناؤنی حرکتوں کو برداشت کرنے سے، پرامن بقائے باہمی کے عمل کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ عمل نسل پرستانہ، غیر انسانی ہونے کے ساتھ ہی مسلم مخالف حملوں کو بھی ہوا دیتا ہے۔‘‘

ڈنمارک کا رد عمل

  ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے سفیر کو طلب کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ کے ساتھ کوپن ہیگن کے، ’’اچھے تعلقات ہیں اور اس کی وجہ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا،’’اب ہمارا کام ترکی سے اس بارے میں بات کرنا ہے کہ کھلی جمہوریت کے ساتھ ڈنمارک کے حالات کیسے ہیں، اور یہ کہ بحیثیت ملک ڈنمارک اور ہمارے لوگوں کے درمیان فرق کیا ہے، پھر ان انفرادی لوگوں کے بارے میں جو مختلف سخت گیر خیالات بھی رکھتے ہیں۔‘‘

نیٹو میں شمولیت کی کوشش اور تنازعہ

سویڈن اور ہمسایہ ملک فن لینڈ یوکرین کی جنگ کے دوران ہی نیٹو کے عسکری اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور چونکہ بعض اہم وجوہات کے سبب ترکی نے اس کے لیے اپنی بعض شرائط رکھی ہیں، اس لیے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔

نیٹو میں شمولیت کے لیے تمام اراکین کی منظوری لازمی ہوتی ہے اور ترکی نے قرآن جلانے کے پہلے واقعے کے بعدیہ عندیہ دیا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے رہنما راسموس پالوڈان نے جو حرکت کی ہے اس کی وجہ سے اب وہ سویڈن کی کوشش کی راہ میں ضرور رکاوٹ ڈالے گا۔

ترکی نے اس حوالے سے برسلز میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا، جس میں سویڈن اور فن لینڈ کی رکنیت پر ہی بات ہونی تھی۔

انقرہ پہلے ہی سے دونوں ممالک پر ایسے کرد مسلح گروہوں، کارکنوں اور دیگر گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا، جنہیں وہ’’دہشت گرد‘‘ مانتا ہے۔

ص ز/ ک م  (اے ایف پی، اے پی)

یورپی یونین کی قرارداد اسلاموفوبیا پر مبنی ہے؟

05:11

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں